استنبول مذاکرات آخری مرحلے میں داخل، طالبان مؤقف کی بار بار تبدیلی سے پاک افغان بات چیت تعطل کا شکار
استنبول میں جاری پاک افغان مذاکرات اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، تاہم افغان طالبان کے مؤقف میں بار بار تبدیلی کے باعث بات چیت تاحال کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکی۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان تیسرے دن اٹھارہ گھنٹے طویل مذاکرات ہوئے، جن میں کئی اہم نکات پر گفتگو ہوئی، لیکن اختلافات برقرار ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے وفد نے بظاہر پاکستان کے افغانستان کی سرزمین پاکستان مخالف دہشتگردوں کے خلاف استعمال نہ ہونے کے مطالبے سے اتفاق کیا، مگر ہر بار کابل سے نئی ہدایات ملنے کے بعد ان کا مؤقف بدل جاتا ہے، جس سے مذاکرات کی رفتار متاثر ہو رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق کابل انتظامیہ کی جانب سے غیر منطقی اور غیر ذمہ دارانہ ہدایات ہی اس وقت سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہیں۔ میزبان ممالک اور پاکستانی وفد دونوں کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ معاملے کو مکالمے اور منطق کے ذریعے حل کیا جائے، اور جنگ کی نوبت نہ آئے۔
پاکستانی وفد نے مذاکرات میں دو ٹوک مؤقف اپنایا کہ پاکستان کا واحد مطالبہ یہ ہے کہ سرحد پار سے دہشتگردی فوری طور پر روکی جائے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ اگر یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل نہ ہوا تو پاکستان کھلی جنگ کے لیے تیار ہے۔
ذرائع کے مطابق پاکستانی وفد نے اپنے مؤقف کو نہایت مدلل اور جائز بنیادوں پر پیش کیا۔ میزبان ممالک نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کے مطالبات منطقی اور امن کے مفاد میں ہیں۔ حتیٰ کہ افغان طالبان کا وفد بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرتا کہ پاکستان کے مؤقف میں وزن ہے، مگر وہ کابل کی ہدایات کے بغیر کوئی فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ذرائع کے مطابق میزبان ممالک نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کے مطالبات معقول اور جائز ہیں، بلکہ افغان طالبان کا وفد خود بھی سمجھتا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا درست اور ضروری ہے۔ تاہم، طالبان وفد بار بار کابل انتظامیہ سے ہدایات لے کر آگے بڑھ رہا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے فیصلوں پر کابل کا اثر و کنٹرول برقرار ہے۔
استنبول میں موجود سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی کامیابی اب کابل انتظامیہ کے رویے پر منحصر ہے۔ اگر کابل اپنی پالیسی میں نرمی اور سنجیدگی دکھاتا ہے تو پیش رفت ممکن ہے، بصورتِ دیگر بات چیت کا یہ سلسلہ بھی ماضی کی طرح بےنتیجہ رہنے کا خدشہ ہے۔
ذرائع کے مطابق اس وقت پاکستان اور میزبان ممالک کی جانب سے ”آخری کوشش“ جاری ہے تاکہ مسئلے کو پرامن طریقے سے طے کیا جا سکے اور خطے میں مستقل امن کی بنیاد رکھی جا سکے۔
Aaj English














