Aaj News

ٹرمپ کا 20 نکاتی غزہ منصوبہ: کیا پاکستان نے اپنا بیانیہ تبدیل کرلیا؟

اس 20 نکاتی منصوبے میں غزہ کو آزاد ریاست کے بجائے اسرائیل کے زیر انتظام علاقے کے طور پر پیش کیا گیا تھا
اپ ڈیٹ 02 اکتوبر 2025 02:02pm

پاکستان نے ایک بار پھر 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ دہرا دیا ہے۔ تاہم، یہ مطالبہ ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے سے متصادم ہے، جس کی وزیراعظم نے حمایت کی تھی۔

جمعرات کو دفتر خارجہ نے فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی غیر متزلزل حمایت اور یکجہتی کا اعادہ کیا۔

دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان فلسطینی عوام کی اس جائز جدوجہد کے ساتھ کھڑا ہے جس کا مقصد اپنے ناقابلِ تنسیخ حقِ خودارادیت کا حصول اور ایک ایسی آزاد، خودمختار، قابلِ عمل اور متصل ریاستِ فلسطین کا قیام ہے جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ہو اور جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔

دفتر خارجہ کا یہ بیان وزیراعظم کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے ٹرمپ کے مجوزہ 20 نکاتی غزہ امن منصوبے کی حمایت کی تھی۔

اس 20 نکاتی منصوبے میں غزہ کو آزاد ریاست کے بجائے اسرائیل کے زیر انتظام علاقے کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے امن منصوبے کے نکات شیئر کرنے اور اس سے قبل اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی ملاقات سے گھنٹوں پہلے ہی وزیراعظم شہباز شریف نے اس امن منصوبے کا خیر مقدم کیا تھا اور کہا تھا کہ ’میں صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کا خیر مقدم کرتا ہوں، جس کا مقصد غزہ میں جنگ کے خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔‘

امن منصوبے کے اعلان کے موقع پر صدر ٹرمپ نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر اُن کے غزہ منصوبے کے ’100 فیصد‘ حامی ہیں۔

جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے اس منصوبے کو ’اقوام متحدہ کے قراردادوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور گولان پہاڑیوں پر قبضے کو جائز قرار دینا علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔

جماعت اسلامی کے سربراہ حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی حکومت کی غزہ کے حوالے سے پالیسی اور ٹرمپ کے منصوبے کی حمایت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ کے ’امن منصوبے کی تعریف جو 66 ہزار فلسطینیوں کی لاشوں پر مبنی ہے‘ ظالموں کے ساتھ کھڑا ہونے کے مترادف ہے۔

وزیراعظم کے بیان پر تنقید کے بعد اسحاق ڈار کی جانب سے وضاحت جاری کی گئی کہ پاکستان نے جو مجوزہ نکات بھیجے تھے وہ شامل نہیں کئے گئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ یہ منصوبہ اُن نکات سے مختلف ہے جو آٹھ مسلم ممالک نے تجویز کیے تھے۔

اسحاق ڈار نے نجی ٹی وی کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جوائنٹ اسٹیٹمنٹ میں ہم نے صدر ٹرمپ کے الگ نقطۂ نظر کو تسلیم کیا اور سراہا ہے، اور اس کے بعد ہم نے اپنا ایجنڈا بھی دوبارہ دہرایا کہ ہم کن اہداف کے لیے پرعزم ہیں اور ہم مل کر صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے ساتھ یہ حاصل کریں گے۔ اور آٹھ ممالک اس پر پُرعزم ہیں۔‘

بعدازاں، تنقید میں شدت آنے پر اسحاق ڈار نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس شریف کو اس کا دارالحکومت بنانے کا مطالبہ دہرایا۔

1967 میں کیا ہوا تھا؟

1967 کی چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے سینائی جزیرہ نما، غزہ، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور شامی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا تھا، جس سے اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں میں تین گنا اضافہ ہوا۔ اسرائیل نے بعد ازاں مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کو اپنا حصہ ظاہر کرتے ہوئے الحاق کا اعلان کیا تاہم عالمی برادری نے ان اقدامات کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔

صرف ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکا وہ پہلا بڑا ملک بنا جس نے اسرائیل کے ان اقدامات کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا۔ اس کے باوجود دنیا کی اکثریت آج بھی مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں کو مقبوضہ علاقے قرار دیتی ہے۔

خیال رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم آزاد فلسطیبنی ریاست کے قیام کو مسترد کرچکے ہیں۔ انہوں نے غزہ سے اپنی افواج نکالنے سے بھی انکار کردیا ہے۔

پاکستان

Gaza

Benjamin Netanyahu

MINISTRY OF FOREIGN AFFAIRS

PM Shehbaz Sharif

Foreign Minister Ishaq Dar

Palestine State

Trump's 20 Point Gaza Peace Plan

1967 Israel Borders