Aaj News

ٹرمپ کے 20 نکاتی غزہ امن منصوبے پر فلسطینی عوام کو تشویش کیوں؟

’منصوبہ غیر حقیقت پسندانہ اور ایسی شرائط کے ساتھ تیار کیا گیا ہے، جنہیں حماس کبھی قبول نہیں کرے گا، امریکا اور اسرائیل یہ جانتے ہیں۔ اس کا مطلب جنگ اور تکالیف جاری رہیں گی۔‘
شائع 30 ستمبر 2025 09:09am

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ پر اسرائیل کی مسلط کردہ تباہ کن جنگ ختم کرنے کے لیے 20 نکاتی منصوبہ پیش کیا ہے۔ منصوبے میں فوری جنگ بندی، یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ، اسرائیلی فوج کا مرحلہ وار انخلا، حماس کی غیرمسلح حیثیت اور ایک عارضی بین الاقوامی نگران حکومت کا قیام شامل ہے۔ تاہم، فلسطینی، خاص طور پر غزہ کے عوام اس منصوبے پر تشویش میں مبتلا ہوگئے ہیں۔

اس منصوبے کو مشرق وسطیٰ اور یورپ کے کئی ممالک نے اصولی طور پر سراہا ہے۔ سعودی عرب، اردن، متحدہ عرب امارات، قطر، انڈونیشیا، ترکی، پاکستان اور مصر کے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہیں۔

تاہم، غزہ کے اندر سے کئی آوازیں سامنے آئی ہیں جنہوں نے اسے ”غیر حقیقت پسندانہ“ قرار دیا ہے۔

جنوبی غزہ کے رہائشی ابراہیم جودہ نے فرانسیسی خبر رساں ادارے ”اے ایف پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ منصوبہ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اسے ایسی شرائط کے ساتھ تیار کیا گیا ہے جنہیں امریکا اور اسرائیل جانتے ہیں کہ حماس کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ اور تکالیف جاری رہیں گی۔‘

اسی طرح ابو مازن نصر نے بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’یہ سب ایک دھوکہ ہے۔ قیدیوں کی رہائی کا کیا مطلب ہے جب جنگ ختم کرنے کی کوئی ضمانت ہی نہیں؟ حماس نے ہمیں تباہی میں دھکیل دیا ہے۔‘

امریکی اتحادی ممالک کی جانب سے بھی مختلف ردعمل سامنے آئے۔

برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے حماس سے کہا کہ وہ اس منصوبے کو قبول کرے اور ’مصائب کا خاتمہ کرے‘۔

فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے بھی کہا کہ ’حماس کے پاس اس منصوبے پر چلنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘

سابق امریکی سفارت کاروں اور ماہرین نے بھی اس منصوبے کو ”اچھا سودا“ قرار دیا ہے۔

سابق صدر اوباما کے دور کے امریکی نمائندہ برائے اسرائیل ڈین شاپیرو کا کہنا ہے کہ ’بہت سے نکات پر مزید وضاحت کی ضرورت ہے، لیکن یہ منصوبہ قابلِ عمل ہے۔ اگلا مرحلہ حماس کو راضی کرنا ہے، جس کے لیے قطر اور ترکی کو سخت دباؤ ڈالنا ہوگا۔‘

اسی طرح بریٹ مکگرک نے کہا کہ جب اسرائیل اور عرب و اسلامی ممالک اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں تو اب تمام عالمی دباؤ حماس پر ڈالنا ہوگا۔

منصوبے کے مطابق غزہ میں ایک ”بورڈ آف پیس“ بنایا جائے گا جس کی سربراہی ٹرمپ کریں گے، جبکہ سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔

تاہم فلسطینی رہنما مصطفیٰ برغوثی نے ٹونی بلیئر کی شمولیت پر تنقید کی اور کہا کہ ’ہم پہلے ہی برطانوی نوآبادیات کا شکار رہ چکے ہیں۔ یہاں اگر ٹونی بلیئر کا نام لیں تو لوگ سب سے پہلے عراق جنگ یاد کرتے ہیں۔‘

اسرائیل میں اس منصوبے کو لے کر محتاط امید دیکھی گئی۔ تل ابیب میں انبار ہائمن نامی خاتون نے کہا کہ ’میں پُرامید ہوں، لیکن ڈرتی ہوں کہ کہیں پھر مایوسی نہ ہو۔‘

نیتن یاہو نے دوحا حملے پر قطری وزیراعظم سے معافی مانگ لی

غزہ حملے میں اپنے والدین سے محروم ہو جانے والے اسرائیلی خاتون گال گورین نے کہا کہ ’ہمیں خوشی ہوئی کہ ٹرمپ نے ہماری آواز سنی اور یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کی بات کی۔‘

خیال رہے کہ جنگ زدہ غزہ میں جہاں اسرائیلی حملوں میں درجنوں افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، کچھ لوگ امید سے بھی وابستہ ہیں۔

31 سالہ اناَس سرور نے اے ایف پی سے گفتگو میں کہ کہ ’ہم نے بہت کچھ کھویا اور جھیلا ہے، پھر بھی مجھے امید ہے۔ کوئی جنگ ہمیشہ نہیں چلتی۔ اس بار میں بہت پرامید ہوں اور دعا ہے کہ یہ خوشی کا لمحہ ثابت ہو جو ہمیں اپنے دکھ بھلا دے۔‘

لیکن تقریباً دو برس سے جاری اس خونریز جنگ اور بار بار ناکام ہونے والے جنگ بندی معاہدوں کے بعد عام فلسطینی اب بھی شکوک میں ہیں۔

غزہ شہر کے رہائشی محمد البلتاجی کہتے ہیں کہ ’جیسا ہمیشہ ہوتا ہے، اسرائیل مان جاتا ہے اور حماس انکار کر دیتی ہے یا اس کے برعکس۔ یہ سب ایک کھیل ہے، اور قیمت ہمیشہ ہم عام لوگ ہی چکاتے ہیں۔‘

یوں مشرق وسطیٰ اور یورپ میں اگرچہ ٹرمپ کے منصوبے پر محتاط امید ظاہر کی گئی ہے، لیکن غزہ کے عوام کی بے یقینی اور حماس کی جانب سے باضابطہ جواب کی کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امن کی راہ اب بھی دشوار اور غیر یقینی ہے۔

Benjamin Netanyahu

Hamas

Israel Gaza War

Trump Peace Plan

Trump's 20 Point Gaza Peace Plan