صدر ٹرمپ کی امن تجاویز پر عمل نہ کیا تو یوکرین مزید علاقے کھو بیٹھے گا: پیوٹن
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ اگر یوکرین اور یورپی رہنما امریکی صدر ڈونلٹر ٹرمپ کی جانب سے پیش کی گئی امن تجاویز پر سنجیدہ مذاکرات میں شامل نہ ہوئے تو روس فوجی طاقت کے ذریعے یوکرین میں مزید علاقے حاصل کرے گا۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بدھ کے روز روسی وزارتِ دفاع کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ روس تمام محاذوں پر پیش قدمی کر رہا ہے اور اپنے اہداف طاقت یا سفارت کاری کے ذریعے حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مخالف فریق اور اس کے غیر ملکی اتحادی بامعنی بات چیت سے گریز کرتے رہے تو روس اپنے تاریخی علاقوں کو فوجی ذرائع سے آزاد کرائے گا۔
امریکا نے یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے روس، یوکرین اور یورپی رہنماؤں سے علیحدہ علیحدہ مذاکرات کیے تاہم کسی معاہدے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی روس کی جانب سے علاقائی رعایتوں کے مطالبات پر تحفظات رکھتے ہیں اور مضبوط سیکیورٹی ضمانتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
روس کے مطابق اس کے کنٹرول میں یوکرین کا تقریباً 19 فیصد علاقہ ہے، جس میں 2014 میں ضم کیا گیا جزیرہ نما کریمیا، مشرقی ڈونباس کا بڑا حصہ، خیرسون اور زاپوریزہیا کے وسیع علاقے اور دیگر 4 علاقوں کے کچھ حصے شامل ہیں۔ ماسکو کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام علاقے اب روس کا حصہ ہیں تاہم یوکرین ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے اور عالمی برادری کی اکثریت بھی ان علاقوں کو یوکرین کا حصہ تسلیم کرتی ہے۔
اسی اجلاس میں روسی وزیرِ دفاع آندرے بیلوسوف نے بتایا کہ 2026 کے لیے روسی افواج کی پیش قدمی کی رفتار میں اضافہ ایک اہم ہدف ہے۔ اجلاس میں پیش کی گئی ایک دستاویز کے مطابق روس 2025 میں جنگی اخراجات پر اپنی مجموعی قومی پیداوار کا 5.1 فیصد خرچ کر رہا ہے۔
پیوٹن کا یورپی رہنماؤں پر اشتعال انگیزی کا الزام
روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے یورپی رہنماؤں پر الزام عائد کیا کہ وہ روس کے خلاف جنگی ماحول پیدا کر رہے ہیں اور نیٹو ممالک پر ممکنہ روسی حملے کے خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔
انہوں نے یورپی سیاستدانوں کے بیانات کو “بے بنیاد” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یورپی سیاستدان جان بوجھ کر خوف کی فضا قائم کر رہے ہیں جب کہ روس کی جانب سے یورپ کے لیے کوئی حقیقی خطرہ موجود نہیں۔
پیوٹن نے دعویٰ کیا کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ اور بعض یورپی رہنما روس کو کمزور یا تباہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاہم یورپی قیادت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
دوسری جانب یورپی رہنماؤں کا مؤقف ہے کہ وہ یوکرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور روس کو جنگ کے بدلے کسی قسم کا فائدہ نہیں ملنا چاہیے۔ بعض یورپی ممالک نے روس پر امن مذاکرات میں عدم سنجیدگی کا الزام بھی عائد کیا ہے۔
اسی تناظر میں روسی وزیرِ دفاع بیلوسوف نے یورپی طاقتوں پر الزام لگایا کہ وہ جنگ کے خاتمے کی کوششوں کو ناکام بنا رہی ہیں اور روس و نیٹو کے درمیان ممکنہ تصادم کے خدشات کو ہوا دے رہی ہیں۔ ان کے مطابق ایسی پالیسیوں کے باعث 2026 میں بھی فوجی کارروائیوں کے جاری رہنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
یوکرین کا یورپ سے روسی منجمد اثاثے استعمال کرنے کا مطالبہ
دوسری جانب یوکرین کے صدر ولودومیر زیلنسکی نے یورپی اتحادیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روس کے منجمد اثاثوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کریں تاکہ ماسکو کو یہ واضح پیغام دیا جا سکے کہ جنگ جاری رکھنا بے معنی ہے۔
رائٹرز کے مطابق یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی نے بدھ کے روز اپنے ویڈیو خطاب میں یورپ سے مطالبہ کیا کہ یوکرین کے لیے حمایت کو یقینی بنایا جائے اور روس کو دکھایا جائے کہ آئندہ سال جنگ جاری رکھنے کی اس کی خواہش بے فائدہ ثابت ہوگی۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب روس کے منجمد اثاثوں سے متعلق یورپی یونین کا ایک اہم اجلاس ہونے جا رہا ہے۔
زیلنسکی نے کہا کہ یورپی رہنماؤں کی ملاقاتوں کا نتیجہ ایسا ہونا چاہیے کہ روس کو یہ احساس ہو جائے کہ یوکرین کو مسلسل حمایت حاصل رہے گی، جس کے بعد جنگ جاری رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔
انہوں نے یورپی شراکت داروں سے مطالبہ کیا کہ یورپی یونین میں موجود تقریباً 250 ارب ڈالر مالیت کے روسی خود مختار منجمد اثاثوں کو یوکرین کے لیے قرض کی معاونت میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا جائے۔ ان اثاثوں کا بڑا حصہ بیلجیئم کے مالیاتی ادارے یوروکلیئر میں رکھا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی حکومتوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ روسی اثاثے غیر معینہ مدت تک منجمد رکھے جائیں گے تاکہ ہر 6 ماہ بعد اس فیصلے کی توسیع کے لیے ووٹنگ کی ضرورت نہ رہے تاہم بعض یورپی رہنماؤں نے اس اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے قانونی پیچیدگیاں اور خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
یوکرینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ یوکرین کے تمام شراکت داروں کو سچ دیکھنے، اسے تسلیم کرنے اور اس کے مطابق فیصلے کرنے کی ہمت دکھانی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ روس اپنے اقدامات سے واضح کر رہا ہے کہ ماسکو آئندہ سال بھی جنگ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
صدر زیلنسکی نے کہا کہ امریکا میں بعض اتحادی یہ تاثر دیتے ہیں کہ روس جنگ ختم کرنا چاہتا ہے تاہم حقیقت میں روس کے بیانات اور عملی اقدامات، بشمول اپنی فوج کو دیے گئے سرکاری احکامات اس کے برعکس اشارہ دیتے ہیں۔
دوسری جانب ماسکو میں بدھ کے روز روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے خبردار کیا کہ اگر کیف اور یورپی رہنما امریکا کی جانب سے پیش کی گئی امن تجاویز پر بات چیت نہیں کرتے تو روس طاقت کے ذریعے یوکرین میں مزید علاقے حاصل کرے گا۔















