فلسطینیوں کے لیے سزائے موت؛ متنازع بِل کی منظوری پر اسرائیلی پارلیمنٹ میں مٹھائیاں تقسیم

قانون عملی طور پر صرف فلسطینیوں پر لاگو ہوگا، یہودی انتہاپسند اس قانون سے مستثنٰی رہیں گے۔
شائع 12 نومبر 2025 01:11pm

اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت کے قانون کی پہلی منظوری دے دی۔ اجلاس کے دوران عرب رکنِ پارلیمنٹ ایمن عودہ اور انتہاپسند وزیر اتمار بن گویر کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی جو تقریباً ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔

اسرائیلی جریدے ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیر کے روز ’دہشت گردی‘ کے جرم میں سزائے موت کے قانون کی پہلی منظوری دی گئی۔

یہ بِل دائیں بازو کی انتہاپسند جماعت، یہودی پاور پارٹی کے سربراہ اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر کی جانب سے پیش کیا گیا، جسے 120 رکنی ایوان میں 39 کے مقابلے میں 16 ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔

اب اس بِل کو دوسری اور تیسری منظوری کے لیے پارلیمنٹ کی متعلقہ کمیٹیوں کو بھیجا گیا ہے تاکہ منظوری کے بعد اسے قانون کا درجہ دیا جا سکے۔

بِل کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ’جو شخص نسل پرستی، نفرت یا اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کسی اسرائیلی شہری کو جان بوجھ کر یا لاپرواہی کے باعث ہلاک کرے گا، اُسے سزائے موت دی جائے گی‘ اور اس سزا میں کسی قسم کی کمی یا رعایت کی اجازت نہیں ہوگی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ بِل کی زبان ایسی ہے کہ اس کے اطلاق کا نشانہ صرف فلسطینی بنیں گے جبکہ فلسطینیوں پر حملے کرنے والے یہودی انتہاپسند اس قانون سے مستثنیٰ رہیں گے۔

AAJ News Whatsapp

بِل کی منظوری کے بعد انتہاپسند وزیر بِن گویر نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ’انکی جماعت ’یہودی پاور‘ تاریخ رقم کر رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو فلسطینیوں کے خلاف امتیازی قانون قرار دیتے ہوئے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کہا ہے۔

اسرائیلی فوجیوں کا عام شہریوں کے قتل اور انسانی ڈھال بنانے کا اعتراف

فلسطینی وزارتِ خارجہ نے مجوزہ قانون کو ’فلسطینی عوام کے خلاف بڑھتی ہوئی اسرائیلی انتہاپسندی اور مجرمانہ رویے‘ کی نئی شکل قرار دیا۔

خیال رہے کہ اسرائیل میں سزائے موت چند مخصوص جرائم کے لیے موجود تو ہے، مگر 1962ء میں نازی مجرم ایڈولف آئخمن کی پھانسی کے بعد سے کسی کو سزائے موت نہیں دی گئی۔

اسرائیل کی زیرِ زمین جیل، جہاں فلسطینی بغیر کسی جرم کے قید ہیں

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس بِل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اس میں کوئی ابہام نہیں 39 اسرائیلی اراکینِ کنیسٹ نے ایک ایسے بل کی حمایت کی ہے جو صرف فلسطینیوں کے لیے سزائے موت لازم قرار دیتا ہے۔‘

انسانی حقوق کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل کی جیلوں میں اس وقت 10 ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جبکہ تشدد، بھوک اور علاج کی کمی کے باعث متعدد قیدی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

Israel

Palestine

Benjamin Netanyahu

Israel Palestine conflict

human rights

amnesty international

Gaza Ceasefire

KNESSET

Ben Gvir