پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی، بارشیں اور سیلاب — تباہی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان ان دنوں شدید بارشوں، سیلاب اور ان سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں ہے۔ صرف تین ہفتوں میں دو سو پچاس سے زائد افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جن میں بڑی تعداد بچوں کی تھی۔ اکثر اموات کا سبب مکان گرنا، اچانک آنے والے سیلاب (فلیش فلڈز) اور ڈوبنے کے واقعات ہیں۔ سوال یہ ہے کہ: آخر پاکستان میں یہ سب کچھ اتنی شدت سے کیوں ہو رہا ہے؟ کون ذمہ دار ہے؟ اور آگے کیا کیا جا سکتا ہے؟
پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا شکار کیوں ہے؟
پاکستان دنیا کے اُن سرفہرست ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، حالانکہ اس کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ صرف 0.5 فیصد ہے۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب نے پاکستان کی کمزوری کو دنیا کے سامنے آشکار کیا۔
گلگت بلتستان میں بارشوں سے اب تک کتنی جانیں گئیں اور کتنی تباہی ہوئی، رپورٹ جاری
اس سیلاب میں 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 3 کروڑ سے زائد لوگ بے گھر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔
عالمی برادری نے 10 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا، مگر اب تک صرف 2.8 ارب ڈالر ہی پاکستان کو موصول ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ہر سال 2050 تک کم از کم 40 سے 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہوگی تاکہ موسمیاتی خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مون سون اور گلیشیئرز: تباہی کی بڑی وجہ؟
پاکستان میں سالانہ بارش کا 70 سے 80 فیصد مون سون کے دوران (جون سے ستمبر) آتا ہے۔ مگر اس سال گلگت بلتستان میں شدید گرمی نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا۔ یہ علاقہ، جسے ”تھرڈ پول“ بھی کہا جاتا ہے، دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئرز کا گھر ہے — پاکستان میں 13 ہزار سے زائد گلیشیئرز موجود ہیں۔ جب گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا، تو ان گلیشیئرز نے تیزی سے پگھلنا شروع کر دیا۔ اس پگھلاؤ نے ندی نالوں اور دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کو خطرناک حد تک بڑھا دیا۔
ذمہ دار کون؟ صرف دنیا یا ہم خود بھی؟
پاکستانی حکام اکثر موسمیاتی تبدیلی کا الزام عالمی طاقتوں پر ڈال دیتے ہیں — کہ انہوں نے ماحولیاتی آلودگی پھیلائی، اور اب متاثرہ ممالک کی مدد نہیں کر رہے۔ مگر ماہرین کا مؤقف ہے کہ مسئلہ صرف عالمی بے حسی کا نہیں، بلکہ ملکی سطح پر ناقص منصوبہ بندی، ناقص انفراسٹرکچر، اور قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کا بھی ہے۔
غیر قانونی تعمیرات، دریاؤں کے کنارے گھروں کی تعمیر، نالوں کی بندش، ندی نالوں پر قبضے — یہ سب عوامل بھی سیلابی تباہ کاریوں کو بڑھاتے ہیں۔ کئی اموات اس لیے ہوئیں کیونکہ لوگوں کے پاس محفوظ پناہ گاہیں، بروقت وارننگ، یا انخلا کے مناسب انتظامات موجود نہیں تھے۔
بارشوں کا چوتھا اسپیل آج پھر ملک بھر میں تباہی مچانے کو تیار، جاں بحق افراد کی تعداد 266 ہو گئی
کرنا کیا ہوگا؟
پاکستان کو اب فوری اقدامات کرنے ہوں گے، جن میں انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلی کے مطابق اپ گریڈ کرنا، قوانین پر سختی سے عملدرآمد، شہری منصوبہ بندی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور عالمی برادری پر مسلسل دباؤ رکھنا تاکہ ماحولیاتی انصاف ممکن ہو سکے، شامل ہیں۔
موسمیاتی تبدیلی ایک حقیقت ہے — اور پاکستان اس کا سب سے پہلا نشانہ۔ اب وقت ہے کہ ہم اسے سنجیدگی سے لیں، ورنہ ہر سال بارشوں کے ساتھ قبریں کھلتی رہیں گی۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔