مولانا فضل الرحمان کی صدر آصف زرداری سے اہم ملاقات، 27 ویں آئینی ترمیم پر گفتگو
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی صدر مملکت آصف زرداری سے ملاقات اہم ملاقات ہوئی ہے جب کہ ملاقات میں 27 ویں ترمیم اور دیگر معاملات زیر غور آئے۔
ذرائع کے مطابق ہفتے کو جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان وفد کے ہمراہ ملاقات کے لیے بلاول ہاؤس پہنچے، جہاں اُن کی صدر مملکت آصف علی زرداری سے اہم ملاقات ہوئی۔
بلاول ہاؤس کراچی میں ہونے والی ملاقات میں بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے جب کہ ملاقات میں مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ مولانا راشد سومرو ، مفتی ابرار احمد اور دیگر بھی موجود تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ ملاقات میں مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم سمیت ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پر گفتگو کی گئی۔
اس سے قبل صدر آصف علی زرداری سے بلاول ہاؤس کراچی میں وزیر داخلہ محسن نقوی کی ملاقات ہوئی، ملاقات میں 27 ویں آئینی ترمیم سے متعلق مشاورت کی گئی۔
یاد رہے کہ آج وفاقی کابینہ سے منظوری حاصل کرنے کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا گیا، جس کے بعد اسے قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے حوالے کیا گیا۔
تاہم قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران جے یو آئی (ف) کے 2 اراکین، عالیہ کامران اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور مؤقف اپنایا کہ مجوزہ مسودے میں وہ ترامیم شامل کی گئی ہیں جو 26ویں ترمیم کے بل سے خارج کی گئیں تھیں۔
گزشتہ روز مولانا فضل الرحمان نے کہا تھا کہ ان کی جماعت کسی بھی ایسی ترمیم کی مخالفت کرے گی جو 18ویں ترمیم کے تحت صوبوں کو حاصل اختیارات میں کمی کا باعث بنے۔
انہوں نے کہا تھا کہ صوبوں کو این ایف سی (نیشنل فنانس کمیشن) ایوارڈ میں اضافے کا آئینی حق حاصل ہے، کمی کا نہیں اور خبردار کیا کہ اگر صوبائی حقوق چھینے گئے تو جے یو آئی (ف) اس کی سخت مخالفت کرے گی۔
سربراہ جے یو آئی (ف) کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا جب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے متنازعہ 27ویں آئینی ترمیم کے لیے اتحادی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مشاورت کی۔
اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے اصولی طور پر کچھ نکات پر اتفاق کیا ہے، تاہم وہ حتمی رائے اس وقت دیں گے جب 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ سامنے آئے گا۔
آرٹیکل 243 میں مجوزہ تبدیلیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ اس معاملے کو دو زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے اگر اس کا استعمال جمہوریت، آئین یا سیاست کو متاثر کرنے کے لیے کیا گیا تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے، لیکن اگر یہ خالصتا انتظامی نوعیت کا معاملہ ہوا تو ہم پہلے اس کا جائزہ لیں گے اور پھر فیصلہ کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے 6 نومبر کو صوبوں کے این ایف سی حصے میں کسی تبدیلی کے خلاف واضح سرخ لکیر کھینچ دی، البتہ وفاق کے زیرِ انتظام مسلح افواج سے متعلق آرٹیکل 243 میں محدود ترامیم کی مشروط حمایت کا عندیہ دیاہے۔













