سلطنتِ عثمانیہ واپس آگئی ہے؟ ٹرمپ کے سابق مشیر کی مسئلہ فلسطین پر ’تین ریاستی حل‘ کی متنازع تجویز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینن نے کہا ہے کہ یروشلم میں ایک خودمختار عیسائی ریاست قائم کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ کچھ سالوں میں اس خطے میں امن و استحکام پیدا ہوسکے۔
اپنے پوڈکاسٹ ’وار روم‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اسٹیو بینن نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ’گریٹر اسرائیل پروجیکٹ‘ ٹرمپ انتظامیہ نے ناکام بنا دیا ہے۔
انہوں نے مسئلہ فلسطین کے تین ریاستی حل (Three-State Solution) سے متعلق تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ’مقدس سرزمین میں ایک عیسائی ریاست ہونی چاہئے تاکہ آئندہ 20 یا 30 سال میں اس خطے میں امن و استحکام پیدا ہو سکے‘۔
مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے منظرنامے پر تبصرہ کرتے ہوئے بینن نے کہا کہ خطے میں ہونے والی پیش رفت ’سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد قائم ہونے والے سو سالہ نظام کو الٹ رہی ہیں‘۔
اسٹیو بینن نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اس وقت سخت دباؤ میں ہیں، کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ان کا ’گریٹر اسرائیل پروجیکٹ‘ ختم کر دیا ہے۔ واشنگٹن کی نئی حکمتِ عملی اسرائیل کو مکمل آزادی دینے کے بجائے پابندیوں اور شرائط کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے واضح کردیاہے کہ ’اگر اسرائیل سیدھی راہ خود چلے تو ٹھیک، ورنہ امریکا سے پیسہ ملے گا، نہ ہتھیار اور نہ حمایت ملے گی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اپنے حالیہ دورۂ مشرقِ وسطیٰ میں واضح کر دیا ہے کہ مغربی کنارے (West Bank) میں مزید اسرائیلی بستیوں کی تعمیر یا الحاق اب نہیں ہوگا۔ ’یہ حتمی فیصلہ ہے، ہمیں پرواہ نہیں کہ کنیسٹ (اسرائیلی پارلیمنٹ) کیا کہتی ہے۔‘
اسٹیو بینن نے غزہ امن معاہدے کے تحت بین الاقوامی فورس میں ترکیہ اور عرب ممالک کی شمولیت کو سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد بننے والے نظام کا خاتمہ اور ترک اور عربوں کی واپسی قرار دیا۔
مزید کہا کہ ’مشرقِ وسطیٰ کے نئے انتظام میں قطر مالی معاونت کرے گا جبکہ ترکیہ کو غزہ میں سیکیورٹی فورس کی قیادت دی جا رہی ہے۔ ’اردوان اس نئے اتحاد کی قیادت کریں گے، جس میں مصر، متحدہ عرب امارات اور شاید سعودی عرب بھی شامل ہوں گے۔‘
صرف دو مہینوں میں مشرقِ وسطیٰ کی وہ ساخت بدل چکی ہے جو ’جنرل ایلن بی‘ اور ’لارنس آف عریبیہ‘ کے زمانے میں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد قائم ہوئی تھی۔
واضح رہے کہ ایلن بی برطانوی فوج کے جنرل تھے جن کی قیادت میں برطانوی افواج نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دے کر فلسطین پر قبضہ کیا، اور تھامس ایڈورڈ لارنس برطانوی جاسوس اور انٹیلی جنس افسر تھے جنہوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب قبائل میں قوم پرستی کے جذبات کو بھڑکایا، جس کا مقصد انہیں عثمانیوں کے خلاف لڑنے پر اکسانا تھا۔
اسٹیو بینن اب کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتے اور نہ ہی ٹرمپ کی ٹیم کا حصہ ہیں، مگر وہ ٹرمپ کے ایجنڈے (Make America Great Again) کے حامی اور بیانیے کو فروغ دینے کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔
Aaj English

















