غزہ جنگ کے دو سال مکمل، اسرائیلی جارحیت سے 67 ہزار فلسطینی شہید، شہر ملبے میں تبدیل
غزہ کی سرزمین، جو کبھی زندگی، خوشی اور امید سے بھری تھی، آج خاک و خون میں تربتر ہے۔ اکتوبر 2023 میں شروع ہونے والی اسرائیلی جارحیت نے اس علاقے کو مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
یہ حملے 7 اکتوبر کو حماس کی کارروائی کے بعد شروع ہوئے تھے، لیکن اسرائیل نے اپنے اس ”دفاعی اقدام“ کو ایک پوری قوم کی نسل کشی میں تبدیل کردیا ہے۔
غزہ میں ہلاکتیں

گزشتہ دو سال کے دوران، یعنی اکتوبر 2023 سے ستمبر 2025 تک، 67 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے تقریباً تیس فیصد بچے ہیں۔ یعنی وہ جنہیں ابھی زندگی کا مطلب سمجھنا بھی نصیب نہ ہوا۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، یہ تمام اعداد و شمار مجموعی ہیں، جن میں عام شہری اور جنگجو دونوں شامل ہیں۔
اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ان میں سے 20 ہزار ”حماس کے جنگجو“ تھے، مگر اقوامِ متحدہ کی ایک تحقیقاتی رپورٹ نے اس دعوے کو نسل کشی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائیاں دانستہ طور پر فلسطینی آبادی کو ختم کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔
اسرائیلی جانی نقصان

دوسری طرف، خبر رساں ایجنسی ”رائٹرز“ کے مطابق اسرائیل کے مطابق اس جنگ میں 1665 اسرائیلی اور غیر ملکی شہری ہلاک ہوئے، جن میں سے 1200 افراد صرف 7 اکتوبر 2023 کے حماس حملے میں مارے گئے۔
اسرائیلی فوج کے 466 اہلکار بھی لڑائی میں مارے گئے، جبکہ تقریباً 3 ہزار زخمی ہوئے۔
حماس نے 7 اکتوبر حملے کے دوران 251 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ اب بھی 48 افراد غزہ میں قید ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کی امید ہے۔
غزہ کی بربادی، مٹی اور ملبے کا ڈھیر

اقوام متحدہ کے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق، غزہ میں 1 لاکھ 93 ہزار عمارتیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ ان میں 213 اسپتال اور ایک ہزار سے زائد اسکول شامل ہیں۔
غزہ کے 36 میں سے صرف 14 اسپتال جزوی طور پر کام کر رہے ہیں، اور وہ بھی زخمیوں اور بے گھر افراد سے بھرے پڑے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ سٹی مکمل طور پر ملبے کا ڈھیر بن چکی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ اگر آبادی کو زبردستی دوسری جگہ منتقل کیا گیا تو یہ نسلی صفایا (Ethnic Cleansing) کے مترادف ہوگا۔
بے گھر ہوئے لوگ اور خیموں کا شہر

اقوامِ متحدہ کے مطابق، غزہ کے صرف 18 فیصد علاقے اب ایسے بچے ہیں جہاں نقل مکانی کا حکم نہیں یا فوجی زون نہیں بنایا گیا۔
جب اسرائیل نے اگست 2025 میں غزہ سٹی پر اپنی کارروائی تیز کی، تو 4 لاکھ 17 ہزار سے زائد لوگ شمال سے جنوب کی طرف ہجرت پر مجبور ہوئے۔
لاکھوں فلسطینی کئی بار اپنا گھر چھوڑ چکے ہیں۔ جنوبی غزہ میں خیموں کے شہر بس چکے ہیں۔ لوگ زمین پر بچھے کپڑوں پر سو رہے ہیں، بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، اور پانی کا ایک گھونٹ سونا بن گیا ہے۔
بھوک اور قحط، زندہ رہنا بھی سزا

غزہ میں قحط (Famine) نے مستقل شکل اختیار کر لی ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق، 5 لاکھ 14 ہزار افراد، یعنی ہر چار میں سے ایک فلسطینی قحط کا شکار ہے۔
اب تک 177 لوگ، جن میں 36 بچے شامل ہیں، بھوک اور غذائی قلت سے مر چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کی آبادیاتی رپورٹ کے مطابق، غزہ کی 60 فیصد حاملہ خواتین اور نئی مائیں غذائی قلت کا شکار ہیں۔
اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو نے قحط کی ان رپورٹس کو ”جھوٹ“ قرار دیا، لیکن مرجھائے چہرے، ہڈیاں، اور بچوں کی خاموش موت کچھ اور کہتی ہے۔
امداد جو پہنچنے سے پہلے چھن جاتی ہے

مئی 2025 میں اسرائیل نے 11 ہفتے کی پابندی کے بعد امداد کی ترسیل بحال کی، مگر حقیقت یہ ہے کہ امداد کی مقدار ضروریات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، ستمبر میں غزہ جانے والے 73 فیصد امدادی ٹرک راستے میں ہی لوٹ لیے گئے ان میں سے کچھ بھوکے شہریوں نے لوٹے جبکہ کچھ مسلح گروہوں نے لوٹ لیے۔
2 ہزار 340 فلسطینی صرف اس جرم میں مارے گئے کہ وہ کھانا لینے گئے تھے۔
مدفون اور تعفن زدہ انسانیت

غزہ اب صرف ایک علاقہ نہیں رہا، یہ انسانیت کا امتحان بن چکا ہے۔ جہاں بچے بھوک سے مرتے ہیں، مائیں اپنے لختِ جگر کو خود دفن کرتی ہیں، اور دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
یہ جنگ، جو ایک ”گروہ“ کے خلاف شروع کی گئی تھی، اب ایک پوری قوم کے خاتمے میں بدل چکی ہے۔
Aaj English


















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔