Aaj News

سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے ٹرانسفر کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا

ججز کے ٹرانسفر کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، سینیارٹی کے تعین کے لیے معاملہ صدر کو بھجوایا جاتا ہے، تحریری فیصلہ
اپ ڈیٹ 25 ستمبر 2025 09:04pm

سپریم کورٹ نے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے ٹرانسفر کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دے دیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کے ٹرانسفر کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، سینیارٹی کے تعین کے لیے معاملہ صدر کو بھجوایا جاتا ہے۔

جمعرات کو سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز سینیارٹی اور تبادلے کو غیر آئینی قرار دینے کے لیے دائر درخواستیں نمٹاتے ہوئے ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کا 55 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا، فیصلہ جسٹس محمد علی مظہر نے تحریر کیا ہے۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججوں نے سپریم کورٹ میں ججوں کی ٹرانسفر اور سینیارٹی کو چیلنج کیا تھا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر کو آرٹیکل 200 کے تحت ججز کی منتقلی کا اختیار حاصل ہے، مگر جج کی منتقلی جج کی رضامندی اور مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ججز کے ٹرانسفر کا فیصلہ عدلیہ کے دائرہ اختیار میں ہے، ٹرانسفر کے عمل میں عدلیہ کی رائے کو اولیت حاصل ہے اور ججز کے ٹرانسفر سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ججز کے ٹرانسفر میں بدنیتی یا انتقامی کارروائی ثابت نہیں ہوئی، ججز کا ٹرانسفر آئین اور قانون کے مطابق ہوا۔

AAJ News Whatsapp

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010 کا سیکشن 3 ٹرانسفر پر قدغن نہیں لگاتا، (ٹرانسفر میں) صوبائی نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کی سینیارٹی کا تعین صدر پاکستان کریں گے، ٹرانسفر مستقل یا عارضی ہے، اس کا فیصلہ صدر سروس ریکارڈ دیکھ کر کریں گے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ معاملہ سینیارٹی کے تعین کے لیے صدر کو واپس بھجوایا جاتا ہے، اور ہائی کورٹ ججز کے ٹرانسفر سے متعلق درخواستیں نمٹائی جاتی ہیں۔

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے تبادلوں کے خلاف درخواست واپس لی، ہائیکورٹ بار نے تسلیم کیا یہ مفاد عامہ کی خلاف ورزی نہیں، ٹرانسفر کے نوٹیفکیشن میں واضح نہیں تھا کہ تبادلہ عارضی ہے یا مستقل، نوٹیفکیشن میں وضاحت کے لیے معاملہ دوبارہ ریفر کیا گیا، تبادلوں پر مشاورت عدلیہ سے ہی کی جاتی ہے، تبادلوں سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی، ٹرانسفر کے بعد جج کو نئے جج کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔

جسٹس صلاح الدین پنوار کا اضافی نوٹ

جسٹس صلاح الدین پنوار نے اضافی نوٹ میں قرار دیا کہ ہائی کورٹس کے ججوں کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئینی، شفاف اور عوامی مفاد میں ہے۔ انہوں نے قومی سنیارٹی لسٹ کی تیاری اور تنوع کے اصول کے اطلاق کی ہدایت دی تاکہ مساوات اور شفافیت یقینی بنے۔

جسٹس صلاح الدین پنوار نے ہائی کورٹس کے ججوں کے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلوں کے معاملے پر اپنے اضافی نوٹ میں قرار دیا ہے کہ صوبائی ہائی کورٹس کے ججوں کا تبادلہ آئینی طور پر درست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تبادلوں میں رضامندی اور چیف جسٹسز سے مشاورت کی شرائط پوری کی گئیں اور یہ فیصلے عوامی مفاد میں کیے گئے، کسی بیرونی دباؤ یا ناجائز عنصر کا اثر شامل نہیں۔

جسٹس صلاح الدین پنوار نے واضح کیا کہ یہ تبادلے عدلیہ کے وفاقی ڈھانچے کو مضبوط کرتے ہیں اور لسانی و علاقائی تنوع کو یقینی بنا کر ادارہ جاتی صلاحیت اور عوامی اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 200 کے تحت تبادلہ نئی تقرری نہیں بلکہ نئی ذمہ داری ہے اور دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلے پر جج کو نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں۔

اضافی نوٹ میں جسٹس صلاح الدین پنوار نے ہدایت دی کہ ہائی کورٹس کے ججوں کی متحدہ قومی سنیارٹی لسٹ تیار کر کے ہر سال نوٹیفائی کی جائے جو صرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلوں کے لیے استعمال ہوگی۔

انہوں نے زور دیا کہ سنیارٹی لسٹ پر تنوع کا اصول لاگو کیا جائے تاکہ شفافیت، مساوات اور تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔

پس منظر

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 19 جون کو 3 ججز کا اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبادلہ آئینی و قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 5 ججز کی جانب سے دائر کردہ درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

عدالت نے 3، 2 کے تناسب سے جاری کردہ مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ججز کا تبادلہ غیر آئینی نہیں ہے۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پنہورنے اکثریتی فیصلے میں کہا تھا کہ صدر پاکستان کو آرٹیکل 200 کے تحت ہائیکورٹ کے جج کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں منتقل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔

فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ یہ اختیار آرٹیکل 175 کے تحت ججوں کی تقرری سے بالکل الگ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو کالعدم نہیں کرتے، منتقلی کو تقرری سمجھنا آئین کی روح کے منافی ہے۔

عدالت نے قرار دیا تھا کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام عہدے صرف جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہی پر کیے جانے چاہئیں، تو یہ مفروضہ آئین کے معماروں کے ارادے کے خلاف ہو گا، منتقلی ایک الگ آئینی شق کے تحت کی جاتی ہے، جو جوڈیشل کمیشن سے آزاد ہے۔

عدالت نے صدر پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ فوری طور پر نوٹی فکیشن کے ذریعے یہ واضح کریں کہ آیا ججز کی منتقلی مستقل ہے یا عارضی، اور ان کی سینیارٹی کا تعین ججز کے سروس ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے بعد کیا جائے۔

بعدازاں صدر مملکت نے 29 جون 2025 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائیکورٹ کا سینئر ترین جج ڈکلیئر کر دیا تھا جبکہ جسٹس سرفراز ڈوگر اور دیگر 2 ججز کا تبادلہ بھی مستقل قرار دے دیا تھا۔

بعدازاں یکم جولائی کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ، جسٹس جنید غفار کو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ، جسٹس عتیق شاہ کو چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ، جسٹس روزی خان کو چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعینات کرنے کی منظوری دے دی گئی تھی۔

7 جولائی کو وزارت قانون نے صدر مملکت کی منظوری کے بعد چاروں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان کی تعیناتی کے نوٹیفیکیشن جاری کیے تھے جبکہ 8 جولائی کو چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان نے اپنے عہدوں کا حلف اٹھا لیا تھا۔

واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور لاہور بار کونسل نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر اور سینیارٹی کیس کے سپریم کورٹ آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔

سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے ججز ٹرانسفر کو آئینی و قانونی قرار دیا تھا۔

درخواستوں میں موقف اپنایا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین اور طے شدہ عدالتی اصولوں کے خلاف ہے، ججز کی سنیارٹی طے کرنے کا مسلمہ طریقہ کار موجود ہے، صدر مملکت کو سینیارٹی طے کرنے کی ہدایت کرنے کی آئین میں گنجائش نہیں۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئینی بینچ کی جانب سے 19 جون 2025 کے حکم نامے کو کالعدم قرار دیا جائے اور اپیلوں پر فیصلے تک پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات معطل کیے جائیں۔

Supreme Court

اسلام آباد

Islamabad High Court

Supreme Court of Pakistan

Judges transfer Case

5 judges petition

5 judges ihc