’آرمی چیف کا 10 سالہ معاشی پلان اور سیاسی مصالحت کے لیے سچی معافی‘، سہیل وڑائچ کے کالم پر سوال اٹھا دیے گئے
معروف صحافی سہیل وڑائچ نے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر سے اپنی پہلی ملاقات پر روزنامہ جنگ میں ہفتے کو ایک کالم شائع کیا، جس میں انہوں نے سربراہ پاک فوج کے حوالے سے کئی دعوے کیے ہیں۔ سہیل وڑائچ کے ان دعوؤں پر صحافتی حلقوں نے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس کالم نے کئی قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق آرمی چیف سے ان کی پہلی ملاقات بیلجیئم کے شہر برسلز میں ہوئی تھی۔ اور یہ ملاقات ایک صحافی اور فیلڈ مارشل کے درمیان تھی جس میں ان کے بقول کھردرے سوالات اور ان کے واضح اور شفاف جوابات تھے۔
انہوں نے اپنے کالم میں ان افواہوں کا ذکر کیا جن کے مطابق ’صدرِپاکستان اور وزیراعظم کو تبدیل کرنے پر کام ہو رہا ہے‘۔
صحافی سہیل وڑائچ کے مطابق، جنرل عاصم منیر نے واضح طور پر کہا کہ تبدیلی کے بارے میں افواہیں سراسر جھوٹ ہیں۔ ان افواہوں کے پیچھے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف اور سیاسی انارکی پیدا کرنے والے عناصر کو قرار دیا۔
تحریر کے مطابق، آرمی چیف نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر کہا، ’خدا نے مجھے ملک کا محافظ بنایا ہے، مجھے اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں، میں ایک سپاہی ہوں اور میری سب سے بڑی خواہش شہادت ہے‘۔
کالم میں کیے گئے دعوے کے مطابق، آرمی چیف کے پاس ’معاشی بحران کے حل کے حوالے سے پورا روڈ میپ تھا، جس میں پانچ اور دس سال کے اندر پاکستان کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کی منصوبہ بندی تھی‘۔
انہوں نے آرمی چیف کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ’اگلے سال سے ریکوڈک سے ہر سال دو ارب ڈالر کا خالص منافع ہوگا اور جو ہر سال بڑھتا جائے گا‘۔ اور ’پاکستان کے پاس نایاب زمینی خزانہ ہے اس خزانے سے پاکستان کا قرض بھی اتر جائے گا اور پاکستان کا شمار جلد ہی خوش حال ترین معاشروں میں ہونے لگے گا‘۔
سہیل وڑائچ کے ان دعوؤں کی صداقت کے حوالے سے آرمی چیف یا فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے تاحال کوئی ردعمل یا بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
آرمی چیف کے معاشی پلان پر ردعمل دیتے ہوئے صحافی اقرارالحسن نے معنی خیز انداز میں لکھا، ’دس سال؟‘
مذکورہ معاشی روڈ میپ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وکیل محمد شفیق نے لکھا، ’پاکستان کا ہر حاضر سروس آرمی چیف ایک پروفیشنل سولجر ہوتا ہے جس کے سامنے کئی سال کا سیاسی معاشی روڈ میپ ہوتا ہے، اس کی عالمی معاملات پر بھی گہری نظر ہوتی ہے، اسی لیے تو بعض دفعہ اسے قوم باپ بھی کہا جاتا ہے‘۔
محسن رضا بھٹہ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے سوال اٹھایا کہ ’ایک طرف انہوں نے کہا محافظ ہوں، میں ایک سپاہی ہوں اس کے علاوہ مجھے کوئی عہدہ نہیں چاہیے، دوسری طرف معاشی ترقی کا پورا روڈ میپ جو آئینی لحاظ سے کسی صورت ان کی ذمہ داری نہیں، اور یہ بات انتہائی سینیئر صحافی نے بھی نہیں پوچھی؟‘
کالم نگارکے مطابق، آرمی چیف نے پاکستان کے چین اور امریکا کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے حوالے سے کہا کہ ’ہم ایک دوست کیلئے دوسرے کو قربان نہیں کریں گے‘۔
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’جنرل عاصم منیر بار بار سیاسی حکومت کے تدبر اور بالخصوص وزیراعظم شہباز شریف کے 18 گھنٹے پُرخلوص کام کرنے کو سراہتے رہے‘۔
ان کے مطابق، ایک سوال کے جواب میں آرمی چیف نے کہا کہ ’سیاسی مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے سے ممکن ہے‘۔
جس پر سینئیر صحافی شاہد اسلم نے لکھا، ’سہیل وڑائچ صاحب سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ملاقات اور اس کی تفصیلات پڑھنے کے بعد فیلڈ مارشل کے مستقبل کے منصوبوں کے حوالے سے کچھ چیزیں مزید واضح ہوئیں، جس میں ایک بات کا واضح اشارہ ملتا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کے ساتھ ان کے معاملات کبھی بھی بہتر نہیں ہوسکتے جب تک وہ ”سچے“ دل سے معافی نہ مانگیں اور ان کی طاقت کو تسلیم نہ کر لیں۔ سوال یہ ہے کیا عمران خان کبھی ایسا کریں گے؟‘
بظاہر پی ٹی آئی کے حامی شہزاد نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا، ’عمران بارے آرمی چیف کی سوچ بہت واضح ہے، صدق دل سے معافی اور اسے ابلیس سے تشبیہ دینا بہت کچھ واضح کر رہا ہے‘۔
معروف صحافی اور ”رفتار“ چینل کے بانی فرحان ملک نے کہا کہ ’مجھے سو فیصد یقین ہے وڑائچ صاحب یہاں کوئی غلطی کر گئے ہیں، ورنہ اسٹبلشمنٹ اور عمران خان کے معاملے میں خدا اور آدم یا خدا اور شیطان والی تمثیل کسی بھی صورت کیسے دی جاسکتی ہے‘۔
کالم کے مصنف کے مطابق، برسلز میں اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کی جانب سے منعقدہ اس کانفرنس میں یورپ بھر سے سیکڑوں اوورسیز پاکستانی شریک ہوئے اور جنرل عاصم منیر کا جنگ کے فاتح کے طور پر استقبال ہوا، ’ایک اوورسیز نے تو جھک کر ان کے ہاتھوں کو چوما‘۔
Aaj English













اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔