Aaj News

جمعرات, مئ 02, 2024  
23 Shawwal 1445  
Live
Live coverage budget 2023 24

بجٹ 24-2023: ٹیکس ریٹرن جمع نہ کروانے والوں کیخلاف سخت جرمانے کی تجویز

ٹیکس ریٹرن تاخیر سے فائل کرنے پر بھی جرمانہ لگانے کی سفارش
شائع 09 جون 2023 02:03pm
فوٹو — فائل
فوٹو — فائل

اسلام آباد: نئے مالی سال 24-2023 کے وفاقی بجٹ میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر جرمانہ عائد کرنے کی تجویز بھی کردی گئی۔

ٹیکس ریٹرن تاخیر سے فائل کرنے پر جرمانہ لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔ سیکشن 165 کے تحت ودہولڈنگ اسٹیٹمنٹ فائل نہ کرنے پر 2 ہزار روپے جرمانے کی تجویز دی گئی ہے۔

ٹیکس ڈیفالٹ کرنے پر یومیہ 200 روپے اضافی جرمانے جب کہ ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ 25 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔

آئندہ مالی سال مہنگائی 21 فیصد رہے گی، بجٹ میں حکومتی اعتراف

بجٹ 24-2023 میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد مقرر
اپ ڈیٹ 09 جون 2023 09:45pm
فوٹو — آج نیوز/ فائل
فوٹو — آج نیوز/ فائل

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے آئند مالی سال کے بجٹ میں جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کر دیا۔

دستاویزات کے مطابق آئندہ مالی سال کے لئے جی ڈی پی گروتھ کا ہدف 3.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے، لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ 3.2 فیصد، الیکٹرسٹی جنریشن اور گیس ڈسٹریبیوشن کی گروتھ کا ہدف 2.2 مقررکیا گیا ہے۔

آئندہ مالی سال کے دوران تعلیم کی گروتھ کا ہدف 3.0 فیصد، ہول سیل اینڈ ریٹیل سیکٹر کی گروتھ کا ہدف 2.8 فیصد جب کہ ٹرانسپورٹ اینڈ کمیونیکیشن کےشعبےکی گروتھ کا ہدف 5 فیصد مقرر کی گئی۔

دستاویزات کے مطابق نجی شعبے کی پیداواری گروتھ کا ہدف 5 فیصد، رئیل اسٹیٹ کے شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.6 فیصد جب کہ فنانشل اینڈ انشورنس کے شعبے کی گروتھ کا ہدف 3.7 فیصد مقرر کر دیا گیا ہے اور مہنگائی کیلئے 21 فیصد کا ہدف مقررکیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ زرعی شعبے کا ہدف 3.5 فیصد، اہم فصلوں کا ہدف 3.5 فیصد، لائیو اسٹاک کا ہدف 3.6 فیصد، کاٹن جین گروتھ کا ہدف 7.2 فیصد، جنگلات کی گروتھ کا ہدف 3.0 فیصد اور فشنگ شعبے کی گروتھ کا ہدف 3 فیصد ہے۔

دفاعی بجٹ میں 274 ارب روپے کا اضافہ

سال 2020 کے بعد سے پاک فوج کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا
اپ ڈیٹ 09 جون 2023 08:57pm

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار مالی سال 24-2023 کا بجٹ پیش کردیا، جس میں دفاع کے لیے 1804ارب روپے بجٹ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

دفاعی بجٹ کے حوالے سے عام تاثر یا غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ یہ کُل بجٹ کا 70 یا 80 فیصد لے جاتا ہے، اس بار حکومت کی جانب سے کہا جاچکا ہے کہ تمام شعبوں میں بچت پالیسی اپنائی جائے گی۔

پاک آرمی کے بجٹ میں 81 ارب روپے کا اضافہ

نئے مالی سال 2023-24 میں دفاع کے لئے بجٹ 1530 ارب سے بڑھا کر 1804 ارب کیا گیا ہے، مجوزہ تخمینہ میں سے پاک آرمی کو 824 ارب روپے ملیں گے، پاک آرمی کے بجٹ میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 81 ارب روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب روپے دستیاب ہوں گے، بجٹ میں صرف 45 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے، جب کہ بحریہ کو 188 ارب روپے دینے کی تجویز ہے، اس بجٹ میں معمولی 18 ارب روپے کا اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

نئے مالی سال کے بجٹ میں دفاعی امور اور خدمات کے لِئے 18 ارب 94 کروڑ 67 لاکھ ، دفاعی خدمات کے لئے 18 ارب 4 کروڑ، دفاعی ملازمین سے متعلق اخراجات کے لئے 705 ارب اور دفاع کے شعبے میں عملی اخراجات کے لئے 442 ارب روپے سے زیادہ مختص کئے جانے کی تجویز ہے۔

دفاع کے شعبے میں مادی اثاثوں کی ترقی کے لئے 461 ارب سے زیادہ، ترقیاتی اخراجات کے لیے 3 ارب 40 کروڑ، شعبہ دفاعی پیداوار کے ترقیاتی اخراجات کے لئے 2 ارب ، دفاعی شعبے میں سول ورکس کے لئے 195 ارب اور دفاعی انتظامیہ کے لئے 5 ارب 40 کروڑ سے زیادہ رکھے جائِیں گے۔

دستاویزات کے مطابق ایف جی ایمپلائز بینوولینٹ فنڈ دفاع کے لئے 3 ارب 39 کروڑ سے زیادہ، گروپ انشورنس فنڈ دفاع کے لئے 16 کروڑ اور دفاع سے متعلق ڈیپازٹس اکاؤنٹس کے لِئے 2 ارب 92 کروڑ، وفاقی حکومت کے کینٹ و گیریژن میں تعلیمی اداروں کے لئے 12 ارب 51 کروڑ، ایٹمی توانائی کے شعبے میں نئے مالی کے دوران 16 ارب 63 کروڑ سے زیادہ، ایٹمی توانائی کے شعبے کی ترقی پر مصارف کا سرمایہ 26 ارب سے زیادہ اور پاکستان نیوکلئیر ریگولیٹری اتھارٹی کی ترقی پر مصارف کا سرمایہ 15 کروڑ ہو گا۔

دیگر ممالک کے دفاعی بجٹ کے ساتھ تقابلی جائزہ

دفاعی بجٹ کا خطے کے دیگر ممالک کے بجٹ کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو بہت سے غور طلب نکات سامنے آتے ہیں۔

خطرے کے اِدراک، متفرق چینلجز اور پاکستان آرمی کی صف آرائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے دفاعی بجٹ کا تنقیدی اور تقابلی جائزہ غورطلب ہے، پڑوسی ملک کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ ہمیشہ ایک سے چیلنج رہا ہے۔ بھارت کا دفاعی بجٹ 76 ارب ڈال ہے، یعنی بھارت پاکستان کی نسبت اپنے ایک فوجی پر سالانہ 4 گنا زیادہ خرچ کر تا ہے۔

پاکستان میں ایک فوجی پر اوسطاً سالانہ13400 ڈالر، بھارت میں 42000 ڈالر، امریکا 392,000 ڈالر، ایران 23000 ڈالرجبکہ سعودی عرب371,000 ڈالر خرچ کرتا ہے۔

سالانہ دِفاعی اخراجات کے حوالے سے بھارت دْنیا کا تیسرا بڑا ملک بن چکا ہے جس کا دِفاعی بجٹ پاکستان کی نسبت 7 گْنا زیادہ ہے، اس کے علاوہ بھارت 5 سال کے دوران سالانہ 19ارب ڈالر خرچ کرکے دْنیا کا دوسرا بڑا اسلحہ درآمد کرنے والا ملک بھی بن چکا ہے، یہ اخراجات پاکستان کے دفاعی بجٹ سے دوگنا ہیں۔

دیگر ممالک کے دفاعی بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو سعودی عرب کا دفاعی بجٹ 55.6 بلین ڈالر، چین کا 293 بلین ڈالر، ایران کا 24.6 بلین ڈالر، متحدہ عرب امارات کا 22.5 بلین ڈالر اور ترکی کا 20.7 بلین ڈالر ہے۔

اعدادوشمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو 2022 میں دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا، جو 2023ء میں کم ہوکر 16 فیصد سے بھی کم ہو گیا، جس میں سے 7 فیصد پاکستان آرمی جب کہ باقی نیوی اور ائر فورس کے حصے میں آتا ہے۔ افراط زر کے دفاعی بجٹ پر اثرات اس کے علاوہ ہیں ، سال 2020 کے بعد سے پاک فوج کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ، نہ ہی مسلح افواج کی تنخواہوں میں کوئی اضافہ کیاہے۔

سال 2017/18کا دفاعی بجٹ مجموعی قومی بجٹ کا 18فیصد تھا جبکہ :

2018-19میں دفاعی بجٹ 19فیصد 2019-20میں دفاعی بجٹ 14 فیصد 2020-21کا دِفاعی بجٹ 17.7فیصد 2021-22کا دفاعی بجٹ 16 فیصد اور 2022-23کا دفاعی بجٹ 16 فیصد رہا۔

سال 2018 کے بعد کولیشن سپورٹ فنڈ کی بندش کے باوجود دِفاعی اور سیکیورٹی ضروریات کو ملکی وسائل سے پورا کیا گیا، متفرق آپریشنز کے اہداف اور دائرہ کار سمیت دیگر سیکیورٹی اْمور میں کوئی کمی نہیں آنے دی گئی۔

بجٹ 2023 - 24 میں کیا مہنگا کیا سستا ہوا؟ تفصیلات سامنے آگئیں

سولر انورٹرز کے پارٹس پر ڈیوٹی صفر، سیور کےعلاوہ بلب پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد
اپ ڈیٹ 09 جون 2023 10:53pm

وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار آئندہ مالی سال 24-2023 کا خسارے کا بجٹ پیش کردیا۔ بجٹ کا مجموعی حجم 14460 ارب روپے ہے۔ تاہم اس میں سے نصف سے زائد رقم قرضوں کے سود کی ادائیگی میں جائے گی۔ بجٹ دستاویزات کے مطابق خسارہ 7570 ارب روپے ہے۔

بجٹ میں ٹیکسوں کے خاتمے یا کمی کے نتیجے میں سولر سسٹم کی اشیا، ہائبرڈ گاڑیاں، ڈائپرز، ادویات کا خام مال اور دیگر کئی اشیا سستی ہوگئی ہیں۔ دوسری جانب ٹریڈ مارک اور برانڈ پر فروخت ہونے والی اشیا پر ٹیکس لگا دیا گیا،

باہر کھانا کھانے والوں سے ڈیبٹ یا کریڈٹ کارڈ کی ادائیگی پر صرف 5 فیصد سیلز ٹیکس لیا جائے گا جبکہ دیگر افراد کے لیے یہ شرح 15 فیصد ہی رہے گی۔

حکومت نے وفاقی ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا ہے۔

بجٹ اجلاس سے پہلے وفاقی کابینہ نے اپنے خصوصی اجلاس میں بجٹ 24-2023 کی منظوری دے دی، اور وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ تجاویز پر دستخط کردیئے۔ جس کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجا پرویز اشرف کی صدارت میں شروع ہوا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار آئندہ مالی سال 24-2023 نے بجٹ پیش کیا، اتحادی حکومت اور وزیر اعظم شہباز شریف کا یہ دوسرا بجٹ ہے۔

فنانس بل 2023 -24 کی تفصیلات آج نیوز نے حاصل کرلی ہیں۔

مالی بجٹ 2023 - 24 میں کیا مہنگا ہوا

ذرائع کے مطابق بجٹ کا حجم 14 ہزار 500 ارب روپے سے زائد تجویز کیا گیا ہے، جس میں اربوں روپے کے نئے ٹیکسز بھی عائد کیے جائیں گے، وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں 9200 ارب روپے کے ٹیکس ریونیو کا ہدف مقرر کرلیا ہے، ڈائریکٹ ٹیکس کی مد میں 3759 ارب اور ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کا حجم 5441 ارب روپے ہے۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد اور بجٹ خسارے کا تخمینہ 6.54 فیصد ہے۔

150 ملین آمدنی والے افراد پر سپر ٹیکس عائد ہوگا

نئے بجٹ میں شیئر ہولڈرز کی سالانہ 15کروڑ سے کم آمدن پر ٹیکس صفر ہوگا، تاہم شیئرہولڈرز کی 15سے 30 کروڑ آمدن پر1 فیصد، 20 سے 25 کروڑ آمدن پر 2 فیصد، 25 سے 30 کروڑ آمدن پر 3 فیصد، 30 سے 35 کروڑ آمدن پر 4 فیصد، 30 سے 35 کروڑ آمدن پر 4 فیصد، 35 سے 40 کروڑ آمدن پر 6 فیصد، 40 سے 50 کروڑ آمدن پر 8 فیصد جب کہ 50 کروڑروپے سے زائد آمدن پر 10 فیصد ٹیکس ہوگا، بونس شیئر پر بھی 10 فیصد ٹیکس دینا ہوگا، اس کے علاوہ غیر معمولی منافع کمانے والوں پر بھی اضافی ٹیکس لگے گا۔

نئے بجٹ کے مطابق اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ کمپنی کی 25 کروڑ سے زائد آمدن پر 1.25 فیصد ٹیکس ہوگا، سالانہ 25 کروڑ سے 80 کروڑ ٹرن اوور پر 20 فیصد ٹیکس ہوگا۔

بجٹ میں فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، جب کہ بجٹ کے بعد مشروبات اور گاڑیوں کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا امکان ہے، پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی کی شرح بھی مزید بڑھائے جانے کا امکان ہے۔

بجٹ میں 50 ہزار روپے بینک ٹرانزکشن پر 0.6 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے، تاہم اس میں جن افراد کا نام ٹیکس پیئر لسٹ میں موجود نہیں ان پر یہ ٹیکس لگایا جائے گا، ایک روز میں 50 ہزار روپے سے زائد کی ٹرانزکشن پر ٹیکس ہوگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بجٹ میں پیٹرولیم پروڈکٹس لیوی آرڈنیننس میں بھی ترمیم کی گئی ہے، فارن ڈومیسٹک ورکرز پر 2 لاکھ روپے ایڈوانس ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے، اور شیشے سے متعلق سامان پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے، اور سیور کےعلاوہ بلب پر 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کی گئی ہے۔

باہر کھانا کھانے پر بھی ٹیکس عائد

بجٹ 2023 - 24 میں ٹریڈ مارک اور برانڈ پر فروخت ہونے والی کھانے پینے کی اشیاء پر اب سیلزٹیکس عائد ہوگا، باہرکھانا کھانے اور کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی پر 5 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا جائے گا، بیرون ملک سے ملازم رکھنے والوں کو ورک پرمٹ پر 2 لاکھ ایڈجسٹ ایبل ایڈوانس ٹیکس دینا ہوگا۔

صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں

قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مزید مراعات کا ارادہ ہے، صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، ایل ایس ایم سیکٹر میں بھی بہتری آئے گی، تاحال معیشت کو چیلنجز کا سامنا ہے، آئندہ مالی سال معاشی ترقی کا ہدف 3.5 فیصد ہے، بجٹ کو الیکشن بجٹ کے بجائے ذمہ دارانہ بنایا ہے، زرعی قرضوں کی حد 2250 ارب روپے کی جا رہی ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کی منظوری

کابینہ نے نئے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایڈہاک 30 فیصد اضافے کی منظوری دے دی ہے۔

بجٹ میں گریڈ ایک سے 16 کی تنخواہ میں 35 فیصد، گریڈ 17 سے 22 کے لیے 30 فیصد اضافے کی منظوری دی گئی ہے، اور پینشن میں 17 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ کی منظوری دی گئی ہے، پنشن پر 654 ارب روپے خرچ ہوں گے۔ جب کہ کم سے کم تنخواہ 30 ہزار مقرر کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔

بجٹ دستاویزات کے مطابق سرکاری ملازمین کے ڈیوٹی سٹیشن سے باہر سرکاری سفر، رات کے قیام کے ڈیلی الاؤنس، معالج الاؤنس میں اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں کون سی چیزیں سستی ہوں گی

سولر سسٹم لگانے کے خواہشمند افراد کے لئے بڑی خوشخبری

بجٹ میں سولر انورٹرز کے پارٹس پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، اس کے علاوہ کنٹرول بورڈ، پاور بورڈ اور چارج کنٹرولر، اے سی ان پٹ اور آؤٹ پٹ ٹرمینل، اور زرعی بیجوں پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، بجلی کی پیداوار اور ترسیل پر بھی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا۔

بجٹ میں ڈائپرز اور سینیٹری نیپکن پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، مائننگ مشینری کی درآمد پر ڈیوٹی صفر کردی گئی ہے، ہائبرڈ الیکٹرک گاڑیوں پر ڈیوٹی ایک فیصد کردی گئی ہے، ہابرڈ وہیکلز کے پرزہ جات کی درآمد پرڈیوٹی 4 فیصد کردی گئی ہے، ایشین میک 1300 سی سی گاڑیوں کی امپورٹ کی فکسڈ ڈیوٹی کی پابندی واپس لے لی گئی ہے۔

ضروی اشیاء کی درآمدات پر ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا

آئندہ بجٹ میں ضروی اشیاء کی درآمدات پر ڈیوٹی میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا، قرآن کی چھپائی کے لیے آرٹ کارڈ اور بورڈ ایکسائز ڈیوٹی سے مستثنی کیا گیا ہے۔

فارما کمپنیز کے لیے سہولت

بجٹ میں فارما کمپنیز کے لیے سہولت دی گئی ہے اور فارما کمپنیز کے لیے مزید 3 ڈرگز ڈیوٹی فری ریجیم میں شامل کی گئی ہے۔

ڈائپرز اور سینیٹری نیپکنز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم

بجٹ میں ڈائپرز اور سینیٹری نیپکنز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، جب کہ سولر پینلز کے لیے استعمال اشیاء اور مشینری پر کسٹمز ڈیوٹی نہیں ہوگی، انورٹرز اور بیٹریز پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔

آئی ٹی سے متعلق سامان پر کوئی امپورٹ ڈیوٹی نہیں ہوگی

بجٹ میں آئی ٹی کے ایکسپورٹرز کے لیے بھی بجٹ میں سہولت دی گئی ہے، آئی ٹی سے متعلق سامان پر کوئی امپورٹ ڈیوٹی نہیں ہوگی، مانیٹرز اور پروجیکٹرز پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے۔

آئی ٹی سیکٹر پر انکم ٹیکس کی شرح سال 2026 تک برقرار رہے گی، فری لانسر کی 24 ہزار ڈالر سالانہ آمدن پر ٹیکس سے چھوٹ ہوگی، وینچر کیپٹل فنڈ کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، آئی ٹی سیکٹرپر 15 فیصد سیلز ٹیکس کم کر کے 5 فیصد کردیا گیا ہے، اور آئندہ سال 50 ہزار آئی ٹی گریجویٹس تیار کئے جائیں گے۔

چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے لئے 10 ارب مختص

بجٹ کے مطابق چھوٹے کاروبار کے لئے 10 ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں، ایس ایم ایز کےلئے 6 فیصد مارک اپ پر 20 فیصد رسک حکومت برداشت کرے گی، ایس ایم ایز کے لئے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کے قیام کی تجویز ہے۔

کاروباری خواتین کے لئے ٹیکس کی شرح میں چھوٹ

بجٹ کے مطابق ایک لاکھ افراد کو لیپ ٹاپ دیئے جائیں گے، جب کہ خواتین کو خود مختار کرنے کے لئے 5 ارب روپے مختص کیے ہیں، اور کاروباری خواتین کے لئے ٹیکس کی شرح میں چھوٹ دی جائے گی۔

کنسٹرکشن انٹرپرائز کی آمدنی پر 10 فیصد رعایت

بجٹ میں آئندہ 3 سال تک کنسٹرکشن انٹرپرائز کی آمدنی پر 10 فیصد رعایت دی جائے گی، اور اس کا اطلاق یکم جولائی اور بعد میں شروع ہونے والے تعمیراتی منصوبوں پر ہوگا۔

تمام ضروری اشیا کی درآمد پر ڈیوٹی نہ لگانے کا فیصلہ

بجٹ میں کپیسیٹرز مینوفیکچررز کے لیے بھی کسٹم ڈیوٹی میں رعایت دی گئی ہے، جب کہ کھانے میں استعمال ہونے والے پاؤڈر کی امپورٹ پر جون 2024 تک رعایت دی گئی ہے، مولڈ اور ڈائس میں استعمال سامان پر بھی کسٹمز ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جبکہ رائس مل مشینیری کے لیے خام مال پر کسٹمز ڈیوٹی ختم کی گئی ہے، مشینیوں کے ٹولز کی درآمد پر بھی کوئی کسٹم ڈیوٹی نہیں ہوگی۔

بجٹ میں اسپورٹس کے پرانے سامان کی امپورٹ پر بھی ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے، فلیٹ پینلز پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے اور سلیکون اسٹیل شیٹس پر بھی کوئی ریولیٹری ڈیوٹی نہیں ہوگی۔

زرعی شعبے کے لئے مراعات کا اعلان

بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے بھی بجٹ میں سہولت دی گئی ہے، تجارتی سہولتوں اور پیداواری لاگت میں کمی پر توجہ دی گئی ہے اور سرمایہ کاری اور انڈسٹرلائزیشن کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔

بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مراعات کا اعلان کیا ہے، اور ہیوی کمرشل وہیکلز پر کسٹم ڈیوٹی 10سے کم کر کے 5 فیصد کردی گئی ہے۔ ہر قسم کے بیج کی درآمد کسٹم ڈیوٹی سے مستثنی ہوگی، جھینگے اور چھوٹی مچھلی کی امپورٹ پر ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے جبکہ 75 کلو واٹس سے کم زرعی ٹریکٹرز کی درآمد پر ڈیوٹی 15 فیصد کردی گئی ہے۔

وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے اس حوالے سے بتایا کہ زرعی شعبے کے لئے2000 سے زائد کسان پیکیج دیا، بجٹ میں زرعی شعبے کے لئے مزید مراعات کا ارادہ ہے، صنعتی شعبے کے لئے آئندہ سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا، جب کہ زرعی قرضوں کی حد 2250ارب روپے کی جا رہی ہے۔

بجٹ میں 50 ہزار زرعی ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے 30 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، معیاری بیجوں کی درآمد پر ڈیوٹیز ختم کردی گئی ہیں چاول کی پیداوار بڑھانے کےلئے بیج کو ڈیوٹیز سے مستثنی کردیا گیا ہے، رائس ملز اور مائننگ مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنی دے دیا گیا ہے۔

بجٹ میں بزنس ایگری کلچر لون اسکیم متعارف کرائی جارہی ہے، جس کے لئے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، چھوٹے کسانوں کو کم منافع پر قرضہ دیا جائے گا، اور انہیں 10 ارب روپے کے قرضے دیئے جائیں گے۔

بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے پراپرٹی ٹیکس ختم

بجٹ کے مطابق بیرون ملک پاکستانیوں کے لئے اگر پراپرٹی خریدیں گے تو ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔

بجٹ میں لنڈے کے اشیا پر ڈیوٹی ختم

وفاقی بجٹ 2023-24 میں لنڈے سمیت پرانی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، جوتوں پر 13 سینٹ، لیدر جیکٹس پر امپورٹ ڈیوٹی 28 سینٹ فی کلو ہے۔ ہینڈ بیگز پر 49 سینٹ، کھلونوں پر47 اور برتن وغیرہ پر50 سینٹ فی کلو درآمدی ڈیوٹی الگ سے وصول کی جارہی تھی۔

بجٹ اجلاس سے پہلے خصوصی اجلاس

بجٹ اجلاس سے پہلے وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، جس میں بجٹ 24-2023 کی منظوری دی گئی، اور وزیراعظم شہبازشریف نے بجٹ تجاویز پر دستخط کیے، جس کے بعد وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس تاخیر کا شکار ہوا، بجٹ اجلاس 4 بجے شروع ہونا تھا جو تاخیر کے بعد تقریباً 6 بجے شروع ہوا۔

وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں بھی بجٹ دستاویزات پیش کیا۔ سینیٹ اجلاس میں بجٹ، سفارشات کے لیے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بھجوایا جائے گا، لیکن بجٹ کے حوالے سے حکومت سینیٹ سفارشات پر عمل درآمد کی پابند نہیں ہوتی۔

ملک کا مجموعی قومی قرضہ 54 ہزار ارب تک پہنچ گیا

نئے بجٹ میں قرضوں کی واپسی کا ٹارگٹ پورا کرنا مشکل ہوگیا
شائع 08 جون 2023 08:33pm

ملک کا مجموعی قومی قرضہ 54 ہزار ارب تک پہنچ چکا ہے اور نئے بجٹ میں قرضوں کی واپسی کا ٹارگٹ پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔

2013 میں ملک کا مجموعی قومی قرضہ 13 ہزار ارب تھا، لیکن صرف 10 سال میں یہ رقم 41 ہزار ارب روپے بڑھی اور اب ملک کا مجموعی قومی قرض 54 ہزار ارب تک پہنچ گیا ہے۔

قرض کی اتنی خطیر رقم کی واپسی حکومت کے لئے درد سر بن چکی ہے اور قابل ادائیگی قرضے میں سود کا حجم تاریخی طور پر بڑھ کر 8 ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے، اور گردشی قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

وزارت خزانہ کے ذرائع نے بتایا ہے کہ 54 ہزار ارب کے مجموعی قرض میں سے گردشی قرض 2800 ارب سے بھی بڑھ گیا ہے، نئے بجٹ میں قرضوں کی واپسی کا ٹارگٹ پورا کرنا مشکل ہوگیا ہے، اور آئندہ مالی سال 14 فیصد قرض ہی ادا کیا جاسکے گا۔

ذرائع وزارت خزانہ کے مطابق خسارے 40 فیصد بڑھنے پر ادائیگیوں کا حجم کم ہوتا رہا، اور ادائیگی میں بار بار تاخیر کے باعث سود کی رقم 8 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو چکی ہے، تاہم حکومت مشکلات کے باوجود پاور سیکٹرز سمیت دیگر اداروں اور قوم کو قرض کے دلدل سے نکالنے کے لئے پرامید ہے۔

دوسری جانب پارلیمنٹرین نے اس ہدف کو ناممکن قرار دیا ہے، اور گردشی قرضوں کے خاتمے کیلٸے بلا تاخیر مہنگے درآمدی تیل پر چلنے والے پلانٹس پر انحصار ختم کرکے سستے اور قابل تجدید تواناٸی کے ذراٸع پر توجہ دینے کی تجویز دی ہے۔

اس حوالے سے سیینیٹر بہرہ مند تنگی کا کہنا ہے کہ گردشی سمیت دیگر قرضوں کے اصل اسباب کے تدارک کی طرف سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی گٸی۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی عبدالکبر چترانی نے کہا ہے کہ آٸی ایم ایف سے نجات ہی تمام مسائل کا حل ہے۔ تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے متنبہ کیا کہ آٸی پی پیز چلتے رہے تو ملکی قرضے بڑھتے رہیں گے۔

وزیراعلی بلوچستان قدوس بزنجو کا وفاقی بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان

بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی بجٹ سیشن کا حصہ نہیں بنے گی، صدر بی اے پی
شائع 08 جون 2023 06:43pm

وزیراعلی بلوچستان میر قدوس بزنجو نے وفاقی بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی بجٹ سیشن کا حصہ نہیں بنے گی۔

وفاقی میں حکومت کی اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے مرکزی صدر اور وزیراعلیٰ بلوچستان میر قدوس بزنجو نے وفاقی بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ اور اس حوالے سے میر عبدالقدوس بزنجو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی وفاقی بجٹ سیشن کا حصہ نہیں بنے گی، اور ہمارے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹرز وفاقی بجٹ سیشن میں شرکت نہیں کریں گے۔

مرکزی صدر بی اے پی نے یہ بھی کہا کہ اپنے اراکین قومی اسمبلی و سینٹ کو اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی واضع ہدایات جاری کردی گئی ہیں، پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے رکن قومی اسمبلی و سینٹ کے خلاف انضباطی کاروائی کر کے ڈی سیٹ کر دیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ این ای سی کے اجلاس کا بائیکاٹ بھی مرکزی حکومت کے رویے کی وجہ سے کیا تھا اور بجٹ سیشن کے بائیکاٹ کی وجہ بھی وفاقی حکومت کی بلوچستان کے لئے سرد مہری ہے، ۔

وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ہماری وفاقی حکومت سے کوئی پر خاش نہیں، ہمارے اختلاف کی وجہ اصولی ہے، ہمارا صوبہ شدید مالی مسائل کا شکار ہے، اور ان مسائل کی بنیادی وجہ وفاقی حکومت کا عدم تعاون ہے، وفاق کی جانب سے بارہا رابطوں اور یاد دہانیوں کے باوجود ہمیں ہمارا آئینی حق نہیں دیا جارہا۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ حکومت وعدے اور یقین دہانیاں تو کراتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا، بلوچستان کی ترقی اور پسماندگی دور کرنے کے لیے اسلام آباد میں بیٹھ کر صرف باتیں کی جاتی ہیں، لیکن صوبے کے زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں، یہاں عملی اقدامات کی ضرورت ہے، آصف علی زردای، مولانا فضل الرحمان، سردار اختر جان مینگل اور صوبے کے دیگر قومی لیڈروں سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے مؤقف کو تقویت دیں۔

میر قدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبے آئینی بنیاد پر ہیں کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کر رہے، پی پی ایل کئی سالوں سے ہمارے واجبات ادا نہیں کررہی، جو 45 ارب روپے سے زائد تک پہنچ چکے ہیں، ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان سے کسی معاہدے کے بغیر سوئی گیس فیلڈ میں پی پی ایل کا آپریشن جاری ہے، پی پی ایل کمپنی کا انتظامی اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے، وفاقی حکومت واجبات کے ادائیگی میں نہ تو کوئی دلچسپی لے رہی ہے اور نہ ہی اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں شامل بلوچستان کے منصوبے فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے عدم تکمیل کا شکار ہیں، ان منصوبوں کے لیے مختص فنڈز کا نصف بھی جاری نہیں کیا جاتا، صوبے کے وفاقی منصوبوں کے ٹینڈر تو ہوتے ہیں لیکن فنڈز کہیں اور منتقل کر دیۓ جاتے ہیں۔

عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال سیلاب میں بلوچستان کی قومی شاہراہوں کو شدید نقصان پہنچا، این ایچ اے نے ان شاہراہوں کی بحالی کے لئے کوئی کام نہیں کیا، ان شاہراہوں پر سفر کر کے محسوس ہوتا ہے کہ ہم پھر سے پتھر کے زمانے میں پہنچ گیے ہیں، کراچی کو کوئٹہ اور سینٹرل ایشیاء سے منسلک کرنے والی شاہراہ کے 8 پل سیلاب میں بہہ گیے تھے، لیکن ایک سال گزر جانے کے بعد بھی متبادل کچے راستوں سے گاڑیاں گزرتی ہیں۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ وزیراعظم شہبازشریف نے ایک سال قبل وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں منعقدہ تقریب میں چمن کراچی شاہراہ کا سنگ بنیاد رکھا تھا، اور کیا تھا کہ 18 ماہ میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا، لیکن بدقسمتی سے ابھی تک اس منصوبہ کا 20 فیصد کام بھی نہیں ہوا، اور جس رفتار سے کام جاری ہے اور فنڈز دیے جا رہے ہیں یہ منصوبہ 18 ماہ تو کیا 18 سال میں بھی مکمل نہیں ہو گا۔

قدوس بزنجو نے مزید کہا کہ این ایف سی کا ہمارا شئیر بروقت نہیں ملتا اور اس میں کٹوتی بھی کی جاتی ہے، وزیراعظم کی جانب سے سیلاب کے دوران اعلان کردہ 10 ارب روپے بھی نہیں دیے گئے۔ 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر ساتواں این ایف سی ایوارڈ اپنی مدت پوری کر چکا، ایوارڈ میں وسائل کی تقسیم کی بنیاد آبادی تھی، حالات کی خرابی کے باعث بلوچستان میں 1998 کی مردم شماری نامکمل رہی، جس کا نقصان ہمیں وسائل کی تقسیم میں ہوا، ہمارا مطالبہ ہے کہ نیا این ایف سی ایوارڈ فوری طور پر کیا جائے جو آئینی تقاضہ بھی ہے، نئی مردم شماری کے مطابق نیا این ایف سی ایوارڈ نہ ہونے سے بلوچستان کو سالانہ 10 ارب سے زائد کا نقصان ہو رہا ہے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان نے مطالبہ کرتے ہوئے تنبہہ کی کہ وفاقی حکومت ہمارے مطالبات اور موقف کو سنجیدگی سے لے، اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وفاق اور صوبے میں پیدا خلیج مزید بڑھے گی جو وفاق کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، بلوچستان کا استحصال کسی صورت قبول نہیں، اپنے جائز آئینی موقف پر ڈٹ کر کھڑے ہیں، عوام ہماری جانب دیکھ رہے ہیں ہم ان کے حقوق کے حصول سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ڈالر اصل قیمت سے 40 سے 45 روپے مہنگا ہے، اسحاق ڈار

وزیر خزانہ نے رواں مالی سال 23-2022 کا اقتصادی سروے پیش کردیا
اپ ڈیٹ 08 جون 2023 07:32pm

وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے معیشت میں گراوٹ رک جانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہاکہ جب حکومت ملی توجی ڈی پی گروتھ 6 فیصد تھی، آئی ایم ایف پروگرام کے لیے بہت بھاری سیاسی قیمت اداکی، ڈالر اصل قیمت سے 40 روپے سے لے کر 45 روپے تک مہنگا ہے۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال کے ہمراہ قومی اقتصادی سروے رپورٹ پیش کرتے ہوئے نے کہا کہ کچھ ماہ اور حکومت نہ سنبھالتے تو معلوم نہیں پاکستان کہاں ہوتا، اقتدار سنبھالا تو حالات خراب تھے، گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیشت 47 نمبر پر آگئی۔

وزیرخزانہ نے کہا کہ حکومت پچھلے ایک سال سے ذمہ داری نبھا رہی ہے، 5 ڈرائیونگ ایریاز کے حوالے سے روڈ میپ تیار کیا ہے، حکومت نے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا، میکرو اکنامک استحکام حکومت کا وژن ہے، 24 سے47 ویں معیشت تک جانے میں بہت سارے محرکات ہیں، اب معیشت میں گراوٹ رک چکی ہے، اندرونی اور بیرونی طورپرایک بات ہورہی تھی پاکستان ڈیفالٹ کررہا ہے۔

اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ گزشتہ دورمیں کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارہ بڑھ گیا، 4 سال میں گردشی قرضہ 1148 ارب سےبڑھ کر 2467 ارب تک پہنچا، ریونیو کا زیادہ حصہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے، پالیسی ریٹ بڑھنے سے قرضوں کا حجم آسمان پر چلا گیا، موجودہ حکومت کومشکل عالمی حالات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ سیلاب کی وجہ سے پاکستان نے بہت بڑاالمیہ دیکھا، سیلاب سے پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا، متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کا کام جاری ہے، مسلم لیگ نون کی قیادت میں ایک ہی پروگرام ختم ہوا، ہم نے بہت بڑی پولیٹیکل کاسٹ ادا کی ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ سیلاب سے جی ڈی پی کو 15.2 ارب ڈالر نقصان ہوا، 14.9 ارب ڈالر کے دیگر نقصانات بھی شامل ہیں، جنیوا کانفرنس میں بہت اچھا رسپانس ملا۔

وزیرخزانہ نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے بہت بھاری سیاسی قیمت ادا کی، پاکستان کے لیے بہت مشکل فیصلے کیے گئے، پاکستان کی ساکھ ختم ہو چکی تھی، دعا ہے 9 واں اقتصادی جائزہ جلد مکمل ہو، کوشش ہوگی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں جتنا اضافہ ہو سکا، کریں گے، آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر اداروں سے 70 کروڑ ڈالر ملنا باقی ہیں، ہمیں بہت تکلیف دہ کام بھی کرنے پڑے۔

انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی 0.29 فیصد رہی پے، آئندہ ہدف 3.5 فیصد ہے، مہنگائی 29.2 فیصد رہی، رواں مالی سال جولائی تا نومبر مہنگائی کی اوسط شرح 18 فیصد رہی، اس میں شہری اور دیہی علاقوں میں کور انفلیشن کو مدنظر رکھ کر اوسط شرح نکالی جائے۔

وزیرخزانہ نے بتایا کہ ایف بی آر کی ریونیو کلیکشن گروتھ 16.1 فیصد رہی، ایف بی آر نے رواں مالی سال میں 6210 ارب روپے جمع کیے اور اب ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا مزید کہنا تھا کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں 76 فیصد بہتری آئی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہوکر 3.3 ارب ڈالر کی سطح پر آگیا ہے، جولائی تا مئی میں درآمدات 72.3 ارب ڈالر سے کم ہو کر52.2 ارب ڈالر ہوگئی ہیں، تاریخ شہباز شریف کی حکومت کو یاد رکھے گی، سیاست پر ریاست کو ترجیح دی۔

ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدرمیں کمی اور پالیسی ریٹ سے منفی اثرات مرتب ہوئے، 11 ماہ میں 6 ہزار 210 ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں سال کم ہو کر 3.3 ارب ڈالر پر آ گیا، یہ حقیقت پسندانہ اعداد و شمار ہیں۔

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اتنا بڑا تجارتی خسارہ کبھی نہیں ہوا، 31 ارب ڈالر کا کلائمیٹ ڈیزاسٹر تھا، ترقیاتی بجٹ کو ہم نے دگنا کیا ہے، پسے ہوئے طبقے کے لئے جو ہوسکے گا کریں گے، شاہد خاقان عباسی کو روپے کی بے قدری سے روکا، حکومت کو کریڈٹ جائے گا کہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچالیا۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ڈالر کی حقیقی قیمت 240 روپے ہے، ہم نے 3 ہفتوں میں 35 روپے ڈیزل کم کیا، پیٹرول 20 روپے اور مٹی کا تیل 12روپے لیٹر سستا کیا۔

احسن اقبال کا اعتراف

اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اعتراف کیا کہ اس سال معیشت کو کئی حادثات کا سامنا کرنا پڑا، میڈیا پر دیکھا تمام اہداف حاصل نہ ہوسکے، 50 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا، 84 ارب ڈالر کی درآمدات زرمبادلہ کے ذخائر اڑاگئیں، ایسا تاثر ملتا ہے جیسے یہ نارمل سال تھا۔

اقتصادی سروے کے اعداد و شمار

رواں مالی سال 2022-23 کے دوران ملکی برآمدات مخصوص ممالک تک محدود رہیں جبکہ پاکستانی درآمدات بھی مخصوص منڈیوں تک محدود رہیں۔

اقتصادی سروے 2022-23 کے اعداد و شمار کے مطابق ملکی برآمدات امریکا، چین، افغانستان، یو اے ای، اٹلی، اسپین تک محدود رہیں، سالانہ بنیادوں پر چین، افغانستان، جرمنی، متحدہ عرب امارات کو برآمدات میں کمی ہوئی، امریکا، برطانیہ، اٹلی اور اسپین کو پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوا، پاکستانی درآمدات بھی مخصوص منڈیوں تک محدود رہا، پاکستان اپنی کل درآمدات کا 50 فیصد 4 ممالک سے درآمد کرتا ہے۔

دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب، کویت، انڈونیشیا سے درآمدات میں اضافہ ہوا ہے، سالانہ بنیادوں پر چین سے درآمدات میں 21 فیصد کی کمی ہوئِی ہے۔

اکنامک سروے کے مطابق ڈومیسٹک سیکٹر سے پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت میں 45.36 فیصد کمی ہوئی، انڈسٹری کی جانب سے 13.27 فیصد، زرعی شعبے کی کھپت میں 24.01 فیصد کمی ہوئی۔

ٹرانسپورٹ سیکٹر کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 19.82 فیصد گرگئی، پاور سیکٹر کی پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 41.66 فیصد کم رہی جبکہ سرکاری اداروں کی پیٹرولیم مصنوعات کی کھپت 5.30 فیصد کم ہوئی۔

وزیرِ اعظم سے وزیرِ خزانہ کی قیادت میں معاشی ٹیم کی ملاقات

دوسری جانب وزیرِاعظم شہباز شریف سے وزیرِخزانہ اسحاق ڈار کی قیادت میں معاشی ٹیم نے ملاقات کی۔

معاشی ٹیم نے وزیرِ اعظم کو اقتصادی سروے برائے مالی سال 23-2022 پیش کیا۔

وزیرِ اعظم نے معاشی ٹیم کی گزشتہ ایک برس میں ملکی معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے کوششوں کو سراہا۔

شہباز شریف نے کہا کہ گزشتہ حکومت کے چھوڑے گئے معاشی چیلنجز اور تاریخی سیلاب کے باوجود معاشی ٹیم کی ملکی معیشت کے لیے خدنات قابلِ ستائش ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ بجٹ میں حکومت زرعی شعبے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدت پر خطیر سرمایہ کاری کرے گی، چھوٹے کسانوں کو اعلی معیار کا بیج اور خود کار زرعی مشینری سے لیس کیا جائے گا۔

وزیراعظم نے ہدایت کی کہ آئندہ بجٹ میں چھوٹے کسانوں کے لیے بلاسود قرضوں کے پروگرام میں توسیع کی جائے، فی ایکڑ ذیادہ پیداوار حاصل کرنے والے کسانوں کو حکومت انعام سے بھی نوازے گی۔

اقتصادی سروے میں کون کون سی تفصیلات شامل ہوں گی؟

قومی اقتصادی سروے میں جاری مالی سال کے دوران اہم سماجی و اقتصادی اہداف اور مختلف شعبوں میں پیشرفت کی تفصیلات شامل ہوں گی۔

اقتصادی سروے میں زراعت، مینوفیکچرنگ ، صنعت، خدمات، توانائی،انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن، کیپٹیل مارکیٹس، صحت ، تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور مواصلات سمیت مختلف شعبوں میں پیشرفت اوراقتصادی رجحانات کا احاطہ کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں قومی اقتصادی سروے میں افراط زر ، تجارت ، قرضوں کی ادائیگی، آبادی ، روزگار، ماحولیاتی تبدیلیوں اور سماجی تحفظ کے شعبہ جات میں حکومتی اقدامات اور رجحانات کا بھی تفصیل سے احاطہ کیا جائے گا۔

سروے کے مطابق حکومت مقررہ معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق رواں مالی سال سیلاب جیسے قدرتی آفات کا سامنا رہا۔ سیلاب اور سیاسی عدم استحکام کے باعث معاشی گروتھ 0.3 تک ریکارڈ ہوئی، روس یوکرین جنگ سے عالمی سطح پر کموڈیٹی پرائس میں اضافہ ریکارڈ ہوا۔

کموڈیٹی پرائس میں اضافے سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

رواں مالی سال جولائی سےمارچ مہنگائی کی شرح 29 فیصد تک ریکارڈ ہوئی، رواں مالی سال جی ڈی پی کا حجم 84 ہزار 600 ارب سے زائد ریکارڈ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر ڈرنک پر ایکسائز ڈیوٹی میں 50 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کی سفارش

رواں مالی سال کے اقتصادی سروے کے اہم نکات

  • معاشی شرح نمو 0.29 فیصد رہی، جبکہ ہدف 5.01 فیصد تھا۔
  • زرعی شعبے کی شرح نمو 1.55 فیصد رہی، جبکہ ہدف 3.9 فیصد مقرر تھا۔
  • سیلاب نے زراعت سمیت دیگر اقتصادی شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا۔
  • فصلوں کی شرح نمو منفی 2.49 فیصد رہی۔
  • اہم فصلوں کی گروتھ منفی 3.20 فیصد رہی، جبکہ ہدف 3.5 فیصد مقرر تھا۔
  • لائیواسٹاک کی ترقی کی شرح نمو 3.78 فیصد رہی، ہدف 3.7 فیصد تھا۔
  • فشریز کے شعبے کی گروتھ 1.44 فیصد رہی، ہدف6.1 فیصد تھا۔
  • جنگلات کے شعبے کی شرح نمو 3.93 فیصد رہی، ہدف 4.5 فیصد تھا۔
  • صنعتی شعبے کی شرح نمو منفی 2.94 فیصد رہی، ہدف 5.9 فیصد تھا۔
  • چھوٹی صنعتوں کی گروتھ 9.03 فیصد رہی، ہدف 8.3 فیصد تھا۔
  • بجلی، گیس، پانی فراہمی کی شرح نمو 6.03 فیصد رہی، ہدف 3.5 فیصد تھا۔
  • تعمیرات کے شعبے کی شرح نمو منفی 5.53 فیصد رہی، ہدف 4 فیصد تھا۔
  • انفارمیشن اور کمیونیکیشن کے شعبوں کی گروتھ 6.93 فیصد رہی۔
  • رئیل اسٹیٹ سرگرمیوں کی گروتھ 3.72 فیصد رہی، ہدف 3.8 فیصد تھا۔
  • تعلیم کے شعبے کی گروتھ 4.9 فیصد رہی، ہدف 10.44 فیصد تھا۔
  • ملکی معیشت کا حجم کم ہو کر 341 ارب 50 کروڑ ڈالر پر آگیا، جو سال 2021-22 میں 375.4 ارب ڈالر تھا۔
  • گزشتہ مالی سال کے مقابلے جی ڈی پی میں 34 ارب ڈالر کمی ہوئی۔
  • معدنیات کے شعبے کی شرح نمو منفی 4.4 فیصد رہی۔
  • مینوفیکچرنگ کی گروتھ منفی 3.9 فیصد رہی۔
  • بڑے صنعتی شعبے کی شرح نمو منفی 7.9 فیصد رہی۔
  • تعمیرات کے شعبے کی گروتھ منفی 5.5 فیصد رہی۔
  • رواں مالی سال کے دوران برآمدات کا متعین ہدف بھی نہ حاصل ہو سکا۔
  • رواں مالی سال جولائی سے مئی 25 ارب 36 کروڑ ڈالر کی برآمدات رہی۔
  • رواں مالی سال کے دوران فی کس آمدن 1558 ڈالر ریکارڈ کی گئی۔
  • ملکی معیشت میں انڈسٹریل ایکٹویٹی کا حجم 17 ہزار ارب روپے سے زائد رہا۔
  • ایگریکلچر، جنگلات اور فشنگ شعبے کا مجموعی حجم 19 ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
  • ملکی معیشت میں سروسز کے شعبے کا حجم 43 ہزار روپے سے زائد ریکارڈ ہوا۔
  • ملکی معیشت میں انڈسٹریل ایکٹویٹی 21.68 فیصد، سروسزسیکٹر 54.27 فیصد شراکت دار ہے۔
  • ملکی معیشت میں ایگریکلچر، جنگلات اور فشنگ کا شعبہ 24.05 فیصد شراکت دار ہے۔

واضح رہے کہ اندرونی اوربیرونی چیلنجوں کے باوجود معیشت میں استحکام اور پائیدارنمو کیلئے حکومت کی جانب سے مرتب کردہ پالیسیوں اورحکمت عملی سے اقتصادی نمو اور سپلائی چین میں بہتری آرہی ہے۔

موجودہ مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارہ میں 76 فیصد کی نمایاں کمی ہوئی، جبکہ دوسری جانب ایف بی آر کے محاصل میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

حکومتی اقدامات سے ملک کے تجارتی خسارہ میں بھی نمایاں کمی ہوئی۔ زری اورمالی استحکام کیلئے مرتب کردہ پالیسیوں کی وجہ سے معیشت پائیدار راہ پرگامزن ہے۔

خریف کی فصلوں سے زرعی سرگرمیوں اور پیداوار میں مزید اضافہ ہوگا، جس سے مجموعی اقتصادی نمو پراثرات مرتب ہوں گے۔

حکومت نے خساروں پر قابو پانے کے لئے حکمت عملی مرتب کی، جس کی وجہ سے مالی سال کے پہلے 10 ماہ میں حسابات جاریہ کے کھاتوں کے خسارے میں سالانہ بنیادوں پر76.1 فیصدکی نمایاں کمی ہوئی۔