غزہ میں جنگ بندی ابھی مکمل نہیں، مذاکرات نازک مرحلے میں ہیں، قطری وزیرِ اعظم
قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات نازک موڑ پر ہیں۔
قطر کے وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے کہا ہے کہ غزہ میں 10 اکتوبر سے جاری سیز فائر محض ایک ’وقفہ‘ ہے اور ابھی مکمل جنگ بندی قائم نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حقیقی امن کے لیے صرف غزہ میں جنگ بندی کافی نہیں بلکہ فلسطینی ریاست کے حقوق اور مغربی کنارے سمیت تمام بنیادی مسائل کو حل کرنا ضروری ہے۔
قطر کے سالانہ بین الاقوامی مکالماتی پلیٹ فارم، دوحہ فورم کے 23 ویں اجلاس میں شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے بتایا کہ غزہ میں امریکی حمایت یافتہ سیز فائر ابھی مکمل نہیں ہوا اور مذاکرات ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اجلاس میں شام اور گھانا کے صدور، قطر اور لبنان کے وزرائے اعظم، اور ترکی کے وزیر خارجہ سمیت درجنوں رہنما شامل ہیں۔
عرب خطے کا چھوٹا ملک ’قطر‘ کتنا طاقتور ہے؟
قطری وزیراعظم نے کہا ’ہم غزہ میں ایک اہم مرحلے پر ہیں، یہ ابھی مکمل جنگ بندی نہیں۔ یہ محض وقفہ ہے۔ حقیقی امن کے لیے اسرائیل کا مکمل انخلا اور غزہ میں استحکام ضروری ہے تاکہ لوگ آزادانہ آمد و رفت کر سکیں۔‘
انہوں نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ رفح کراسنگ کھولنے میں تاخیر سے امریکی امن منصوبے میں تعطل پیدا ہوا ہے۔ قطر، ترکی، مصر اور امریکا مل کر جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر کام کر رہے ہیں، جس میں ایک عبوری ٹیکنوکریٹ فلسطینی حکومت اور بین الاقوامی ’بورڈ آف پیس‘ قائم کرنا شامل ہے۔
قطر پر اسرائیلی حملے میں محفوظ رہنے والے حماس کے سینئر رہنما خلیل الحیہ منظر عام پر آگئے
شیخ الثانی نے کہا کہ دوسرا مرحلہ بھی عارضی ہوگا کیونکہ حقیقی مسئلہ صرف غزہ نہیں بلکہ مغربی کنارے اور فلسطینی ریاست کے حق کا ہے۔ انہوں نے صدر ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی حماس سے براہِ راست بات چیت نے یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ بندی میں بریک تھرو فراہم کیا۔
غزہ جنگ بندی کا پہلا مرحلہ، اسرائیل اور حماس نے معاہدے پر دستخط کر دیے
قطری وزیراعظم نے واضح کیا کہ قطر صرف ایک ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے اور کسی ایک فریق کا حامی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ قطر کے سخت ترین ناقد وہی ممالک ہیں جو بحران کے دوران ثالثی کے لیے قطر کی مدد طلب کرتے ہیں۔
انہوں نے اختتاماً اس امید کا اظہار کیا کہ قطر اور امریکا کی کوششیں ایک ایسا امن وژن آگے بڑھائیں گی جو فلسطینی اور اسرائیلی دونوں قوموں کے لیے انصاف اور دیرپا امن کی بنیاد بنے گا۔













