استنبول مذاکرات پر غیرجانبدار ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی: سفارتی ذرائع
استنبول مذاکرات پر وزارتِ خارجہ کا واضح اور دوٹوک مؤقف سامنے آگیا، وزارت خارجہ نے پاک افغان تعلقات کا مکمل پس منظر شواہد کے ساتھ دنیا کے سامنے رکھ دیا۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خارجہ نے افغانستان سے متعلق جامع اور شواہد پر مبنی مؤقف پیش کیا، پاکستان کا مؤقف تعصب سے بالاتر ہے اور حقائق اور میرٹ پرمبنی ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق غیر جانبدار ممالک نے پاکستان کے مؤقف کی تائید کی ہے، پاکستان نے ہمیشہ ذمہ دارانہ طرزِعمل اپنایا ہے، پاکستان خطے میں امن واستحکام کے لیے پرعزم ہے۔
سفارتی ذرائع کا بتانا ہے کہ پاکستان افغانستان کی صورتحال کو سفارتی مہارت اور اخلاقی برتری سے سنبھال رہاہے، پاکستان کامؤقف عالمی سطح پرپذیرائی حاصل کررہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ وزارت خارجہ نے تعطل کی و جوہات منطق اور شواہد کے ساتھ واضح کی ہیں، پاکستان نے ریکارڈ درست کرتے ہوئے غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا ہے۔
پاکستان، افغان طالبان مذاکرات کے تیسرے دور سے متعلق دفترخارجہ کا بیان
قبل ازیں استنبول میں پاکستان اور افغانستان طالبان کے درمیان کے مذاکرات کے تیسرے دور سے متعلق دفتر خارجہ نے بیان جاری کردیا۔
ترجمان دفترخارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور برادر ممالک ترکیہ اور قطر کی میزبانی میں 7 نومبر کو استنبول میں مکمل ہوا، پاکستان، دہشت گردی کے بنیادی مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ اور مثبت کوششوں کو سراہتا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران، جب سے طالبان حکومت افغانستان میں برسرِ اقتدار آئی، افغان سرزمین سے پاکستان پر دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، پاکستان نے ان سالوں میں بے پناہ جانی نقصان اٹھانے کے باوجود حد درجہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور جوابی کارروائی سے گریز کیا۔
ترجمان دفترخارجہ کے مطابق پاکستان کو توقع تھی کہ وقت کے ساتھ طالبان حکومت اپنی سرزمین سے دہشت گرد حملوں پر قابو پائے گی اور ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور دیگر عناصر کے خلاف عملی اقدامات کرے گی۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تجارتی، انسانی ہمدردی، تعلیمی اور طبی شعبوں میں تعاون کی راہیں کھولنے کی کوشش کی، مگر اس کے جواب میں افغان حکومت کی جانب سے صرف وعدے اور غیر سنجیدہ بیانات ملے۔
ترجمان نے کہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینا طالبان حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے، لیکن اس حوالے سے وہ عملی اور قابلِ تصدیق اقدامات سے گریزاں ہیں اور غیر متعلقہ موضوعات اٹھا کر اصل مسئلہ دبانے کی کوشش کرتی ہے۔ اکتوبر 2025 میں پاکستان کا ردعمل اس عزم اور ارادے کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین اور عوام کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار پاکستان اور اس کے عوام کے کھلے دشمن ہیں، اور جو کوئی بھی ان کی پناہ، مدد یا مالی معاونت کرتا ہے، وہ پاکستان کا خیرخواہ نہیں۔ پاکستان امن اور سفارت کاری کا حامی ہے اور طاقت کا استعمال ہمیشہ آخری آپشن سمجھتا ہے، ترکیہ اور قطر کی مخلصانہ تجاویز پر عمل کرتے ہوئے پاکستان نے امن مذاکرات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق دوحہ میں پہلے دور کے دوران فریقین کے درمیان بعض اصولی نکات پر اتفاق ہوا اور عارضی فائر بندی پر بھی رضا مندی ظاہر کی گئی، استنبول میں دوسرے دور میں ان نکات پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر بات ہونا تھی، لیکن طالبان وفد نے اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی اور غیر سنجیدہ بیانات اور الزام تراشی کے ذریعے ماحول خراب کیا۔
دفتر خارجہ نے کہا کہ ‘تیسرے دور میں بھی پاکستان نے مثبت اور تعمیری رویہ اپنایا اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے مؤثر نگرانی کے نظام پر زور دیا، لیکن افغان وفد نے غیر متعلقہ الزامات اور دعووں کے ذریعے بات چیت کو بے نتیجہ بنایا۔ مذاکرات کے دوران یہ بات واضح رہی کہ طالبان حکومت صرف عارضی جنگ بندی کو طول دینا چاہتی ہے، جبکہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند اور بی ایل اے / فتنۃ الاحرار کے خلاف کوئی ٹھوس اور قابلِ تصدیق اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔
ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ طالبان حکومت دہشت گردوں کو مہاجرین کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حالانکہ یہ انسانی مسئلہ نہیں بلکہ دہشت گردی کی حمایت کا معاملہ ہے۔پاکستان کسی بھی پاکستانی شہری کو واپس لینے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ انہیں طورخم یا چمن بارڈر پر باقاعدہ طریقے سے حوالہ کیا جائے، نہ کہ اسلحہ و ساز و سامان کے ساتھ غیر قانونی طور پر بھیجا جائے۔
ترجمان نے کہا کہ ’پاکستان کسی دہشت گرد گروہ سے بات چیت نہیں کرے گا، خواہ وہ ٹی ٹی پی / فتنۃ الہند ہو یا بی ایل اے / فتنۃ الاحرار، طالبان حکومت کے اندر ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو پاکستان سے تصادم نہیں چاہتے، مگر بیرونی مالی معاونت یافتہ ایک لابی تعلقات خراب کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔
بیان کے مطابق پاکستان کے عوام اور افواج دہشت گردی کے خلاف متحد ہیں، پاکستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان پاکستانی عوام نے اٹھایا ہے، پاکستان اپنے اندرونی مسائل سے آگاہ اور ان کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے۔
دفترخارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ پاکستان نے بارہا طالبان حکومت سے کہا ہے کہ پاکستان مخالف دہشت گردوں کی حمایت ترک کرے، اگست 2021 کے بعد سے افغانستان سے دہشت گردی میں واضح اضافہ ہوا ہے جسے طالبان حکومت نہ جھٹلا سکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داری سے بری ہو سکتی ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے پشتون قوم پرستی کو ہوا دینے کی کوششیں بھی قابلِ مذمت ہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں پشتون عوام ریاست اور معاشرے کا متحرک حصہ ہیں، جو سیاست، بیوروکریسی اور قومی اداروں میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ پاکستان باہمی اختلافات کے حل کے لیے مذاکرات کا حامی ہے، تاہم دہشت گردی کا مسئلہ اولین ترجیح کے طور پر حل ہونا چاہیے، پاکستان کی مسلح افواج اور عوام مل کر اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔












