امریکی انٹیلی جنس کا انکشاف: اسرائیلی فوجی وکلا نے خود جنگی جرائم کے شواہد تسلیم کیے، امریکا نے نظرانداز کردیا

اسرائیلی فوج کے اندر بھی اپنے اقدامات کی قانونی حیثیت پر شکوک موجود تھے، رپورٹ
شائع 08 نومبر 2025 09:29am

امریکی انٹیلی جنس نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج کے اپنے قانونی ماہرین نے گزشتہ سال خبردار کیا تھا کہ ایسے شواہد موجود ہیں جو غزہ میں فوجی کارروائیوں کے دوران اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ یہ ثبوت اُن کارروائیوں کے بارے میں ہیں جو امریکی ہتھیاروں سے کی جا رہی تھیں۔

خبر رساں ادارے ”رائٹرز“ کی رپورٹ کے مطابق پانچ سابق امریکی حکام نے بتایا کہ یہ انٹیلی جنس معلومات امریکی پالیسی سازوں کے لیے سب سے چونکا دینے والی تھیں، کیونکہ ان سے ظاہر ہوا کہ اسرائیلی فوج کے اندر بھی اپنے اقدامات کی قانونی حیثیت پر شکوک موجود تھے، حالانکہ اسرائیل عوامی طور پر اپنی کارروائیوں کا دفاع کرتا رہا۔

دو سابق امریکی اہلکاروں کے مطابق یہ معلومات دسمبر 2024 میں امریکی کانگریس کی بریفنگ سے پہلے بائیڈن انتظامیہ کے مختلف اداروں میں تقسیم کی گئیں۔ ان دستاویزات نے واشنگٹن میں اسرائیلی طرزِ عمل پر مزید خدشات پیدا کیے، خصوصاً اس وقت جب غزہ میں عام شہریوں کی اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔

غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق دو سالہ جنگ میں اسرائیلی بمباری سے اب تک 68 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اسرائیل کے بقول تقریباً 20 ہزار ”جنگجو“ شامل تھے۔

امریکی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا کہ اسرائیلی فوج نے جان بوجھ کر عام شہریوں اور انسانی ہمدردی کے کارکنوں کو نشانہ بنایا، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگی جرم شمار ہوتا ہے۔ تاہم اسرائیل نے ان الزامات کو مسترد کیا۔

رپورٹ کے مطابق یہ انٹیلی جنس اس وقت بائیڈن انتظامیہ میں ایک بڑا اندرونی بحران بن گئی تھی۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل میں ہونے والی میٹنگز میں حکام اور وکلا نے اس پر بحث کی کہ اگر امریکا نے باضابطہ طور پر اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا، تو امریکی قانون کے تحت اسے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی اور انٹیلی جنس شیئرنگ بند کرنا پڑے گی۔ جو دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کے لیے دھچکا ہوتا۔

انڈونیشیا: نمازِ جمعہ کے دوران مسجد میں دھماکا، 54 افراد زخمی

دسمبر 2024 میں اس بحث میں وائٹ ہاؤس، محکمۂ خارجہ، پینٹاگون اور انٹیلی جنس اداروں کے اعلیٰ حکام شریک ہوئے، اور صدر جو بائیڈن کو بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ تاہم بعد میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ امریکا کے پاس ایسا ”مستقل ثبوت“ نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ اسرائیل نے دانستہ طور پر شہریوں کو نشانہ بنایا، لہٰذا ہتھیاروں کی فراہمی اور تعاون جاری رکھا جائے۔

AAJ News Whatsapp

تین سابق امریکی حکام کے مطابق انتظامیہ کے کچھ افسران کا خیال تھا کہ اگر امریکا نے اسرائیل کے خلاف باضابطہ موقف اختیار کیا تو اس سے حماس کو فائدہ پہنچے گا، جنگ بندی کے مذاکرات رک جائیں گے اور سیاسی بیانیہ حماس کے حق میں جا سکتا ہے۔

اس فیصلے سے امریکی انتظامیہ کے اندر شدید اختلافات پیدا ہوئے۔ کچھ حکام کا کہنا تھا کہ بائیڈن حکومت نے واضح شواہد کے باوجود اسرائیلی زیادتیوں پر آنکھیں بند رکھیں، جس سے امریکا خود ایک شریک جرم دکھائی دینے لگا۔

امریکی محکمۂ خارجہ کے وکلا نے بھی بارہا سیکریٹری خارجہ اینٹونی بلنکن کو خبردار کیا کہ اسرائیلی کارروائیاں بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کے زمرے میں آ سکتی ہیں۔ دسمبر 2023 میں ہونے والی اندرونی میٹنگز میں ان وکلا نے کہا تھا کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کا طرزِ عمل ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے مترادف ہے۔ تاہم محکمۂ خارجہ نے اس پر کوئی حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا اور ”سیاسی توازن“ قائم رکھنے کے لیے خاموشی اختیار کی۔

بعد ازاں مئی 2024 میں امریکی حکومت کی ایک رپورٹ میں بھی تسلیم کیا گیا کہ اسرائیل نے امریکی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے بین الاقوامی انسانی قوانین کی ممکنہ خلاف ورزی کی، لیکن رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ”جنگ کے حالات میں صورتحال مکمل طور پر واضح نہیں تھی“۔

ٹرمپ نے مئی کی جھڑپوں میں بھارت کے تباہ شدہ طیاروں کی تعداد بڑھا دی

دوسری طرف، گزشتہ نومبر میں عالمی فوجداری عدالت نے اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو، سابق وزیر دفاع، اور حماس رہنما محمد ضعیف کے خلاف جنگی جرائم کے وارنٹ جاری کیے تھے۔ اسرائیل نے عدالت کے دائرہ اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، جبکہ حماس نے بھی الزامات مسترد کیے۔

امریکی سینیٹر کرس وین ہولن نے کہا کہ رائٹرز کی رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے جان بوجھ کر اسرائیلی جنگی جرائم کے ثبوتوں کو نظرانداز کیا اور امریکی ہتھیاروں کے استعمال پر ”آنکھ بند“ رکھی۔ ان کے مطابق ”یہ امریکی اخلاقیات اور قانون دونوں کے منافی ہے“۔

ادھر اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس کی کارروائیاں صرف حماس کے خلاف ہیں، نہ کہ عام شہریوں کے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ شہری نقصانات کم کرنے کے لیے پیشگی وارننگز، محفوظ راستے، اور مخصوص گولہ بارود کا استعمال کرتی ہے، جبکہ تقریباً دو ہزار واقعات کی اندرونی تحقیقات جاری ہیں۔

تاہم عالمی برادری میں یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل کی یہ ”اندرونی تحقیقات“ صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ذریعہ ہیں، یا واقعی کوئی انصاف ہونے والا ہے؟ فی الحال، امریکا اور اسرائیل دونوں کے رویے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انصاف کی راہ ابھی طویل اور پیچیدہ ہے۔

Benjamin Netanyahu

Israel Gaza War

US Weapons To Israel

Israe War Crimes