امریکا نے غیرملکیوں اور گرین کارڈ ہولڈرز کے ملک میں داخلے و اخراج پر نئے قواعد جاری کر دیے
امریکا نے غیر ملکیوں، حتیٰ کہ گرین کارڈ ہولڈرز کے لیے بھی ملک میں داخلے اور خروج کے وقت بایومیٹرک اور چہرہ شناس نظام کو لازمی قرار دے دیا ہے۔ محکمۂ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے مطابق یہ نیا ضابطہ 26 دسمبر 2025 سے نافذ ہوگا، جس کا مقصد جعلی سفری دستاویزات، شناختی دھوکہ دہی اور ویزا کی مدت سے تجاوز کے واقعات کو روکنا ہے۔
محکمہ کے ذیلی ادارے یو ایس کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کے مطابق اب ہر غیر امریکی شہری کی تصویر اور دیگر بایومیٹرک معلومات سرحدی چیک پوائنٹس پر داخلے اور روانگی، دونوں مواقع پر حاصل کی جائیں گی۔ اس ضمن میں وہ عمر کی رعایتیں بھی ختم کر دی گئی ہیں جو پہلے 14 سال سے کم اور 79 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے موجود تھیں۔
یہ نظام دراصل موجودہ چہرہ شناخت ٹیکنالوجی کو وسعت دے گا جو اس وقت زیادہ تر بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر استعمال کی جا رہی ہے، تاہم نئے ضوابط کے بعد اسے تمام زمینی، سمندری اور فضائی داخلی و خارجی راستوں پر لازم کیا جائے گا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سے ویزا سے زیادہ قیام کرنے والوں کا سراغ لگانے میں مدد ملے گی۔ ایک ایسا مسئلہ جس کے بارے میں ایک 2023ء کی رپورٹ کے مطابق، تقریباً 42 فیصد غیر قانونی مقیم افراد اسی زمرے میں آتے ہیں۔
امریکی کانگریس نے 1996ء میں ایک خودکار داخلہ و خروج نظام کے قیام کی منظوری دی تھی، مگر وہ اب تک مکمل طور پر نافذ نہیں ہو سکا۔ نئی پیش رفت کو اسی قانون کے تحت عملی جامہ پہنانے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن (CBP) کے اندازے کے مطابق اگلے تین سے پانچ سالوں میں یہ بایومیٹرک نظام تمام بڑے ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں پر مکمل طور پر فعال ہو جائے گا۔ اس کے تحت مسافروں کی تصویری معلومات ایک مرکزی ڈیٹا بیس میں جمع ہوں گی، جنہیں پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات سے جوڑ کر اصل وقت میں تصدیق کی جائے گی۔
ماہرین کی تشویش: یہ نگرانی کی نئی شکل ہے
اگرچہ حکومت اسے قومی سلامتی کے لیے ناگزیر قدم قرار دے رہی ہے، مگر شہری آزادیوں کے حامی ماہرین اور تنظیموں نے شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ امریکی کمیشن برائے شہری حقوق کی 2024ء کی رپورٹ میں کہا گیا کہ چہرہ شناخت ٹیکنالوجی سیاہ فاموں اور دیگر نسلی اقلیتوں کے چہروں کی شناخت میں زیادہ غلطیاں کرتی ہے، جس سے امتیازی سلوک کے خدشات بڑھ سکتے ہیں۔
امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU) کے سینئر پالیسی مشیر کوڈی وینزکے نے اس اقدام کو ”پرائیویسی کے حق پر حملہ“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ: ”یہ ٹیکنالوجی نا قابلِ اعتماد ہے، اقلیتوں کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے، اور ایک مستقل نگرانی کے نظام کی بنیاد رکھتی ہے۔“
ناقدین کا مؤقف ہے کہ اگرچہ قانون سازی دو دہائیاں پہلے ہوئی تھی، مگر اُس وقت اس نوعیت کی جدید ٹیکنالوجی کا تصور بھی نہیں تھا۔ ان کے بقول موجودہ ضابطہ شہری آزادیوں، نجی زندگی اور نسلی مساوات کے لیے نئے سوالات پیدا کرتا ہے۔
دوسری جانب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ جدید بایومیٹرک نظام سے سرحدی عمل تیز، محفوظ اور زیادہ شفاف ہو جائے گا اور اس سے وہ خامیاں دور ہوں گی جن کا فائدہ ماضی میں غیر قانونی داخلے یا ویزا کی خلاف ورزی کرنے والے افراد نے اٹھایا۔
یوں، جہاں ایک طرف امریکا اسے قومی سلامتی کے لیے اہم قدم قرار دے رہا ہے، وہیں دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عام لوگوں پر مسلسل نگرانی کا راستہ کھول سکتا ہے۔
Aaj English


















