پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپوں کی شروعات کیسے ہوئی؟
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تازہ کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب تین روز قبل افغانستان کے دارالحکومت کابل اور سرحدی علاقوں میں مبینہ فضائی حملوں کی اطلاعات سامنے آئیں۔ افغانستان کی وزارتِ دفاع نے الزام لگایا کہ پاکستان نے افغان فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کابل سمیت دو مختلف مقامات پر فضائی کارروائی کی۔
افغان حکام کا کہنا تھا کہ پاکستان کو مبینہ طور پر شبہ تھا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنما مفتی نور ولی محسود کابل میں موجود ہیں۔ بعض غیر مصدقہ اطلاعات میں یہ بھی کہا گیا کہ مفتی نور ولی محسود اس کارروائی میں مارے گئے، تاہم پاکستان کی جانب سے اس خبر کی نہ تصدیق کی گئی اور نہ تردید سامنے آئی۔
پاک فوج نے 19 افغان پوسٹوں پر قبضہ کرلیا، خوارج کا مرکز بھی تباہ، درجنوں طالبان سپاہی اور خارجی ہلاک
جمعے کے روز پشاور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران جب پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے واضح جواب دینے سے گریز کیا اور کہا کہ ’پاکستانی عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔‘
افغان طالبان کی حکومت نے ان حملوں پر شدید ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری ان کے لیے ایک ’سرخ لکیر‘ ہے، اور اگر پاکستان نے اسے پامال کیا تو وہ جواب دینے کا حق رکھتے ہیں۔
اسی دوران افغانستان کی وزارتِ دفاع نے الزام عائد کیا کہ پاکستانی فوج نے صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی، جس میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے انٹیلیجنس بنیادوں پر کارروائی افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کی گئی تھی، اور اس کا مقصد اُن عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانا تھا جو پاکستان کے اندر حملوں میں ملوث ہیں۔
اس دوران افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر پہنچے اور پاکستان کو مبینہ حملوں پر دھمکیاں دیں۔
افغانی جارحیت بھارتی پیسوں سے خریدی گئی ہے‘،جوابی کارروائی کے بعد پاکستان کا ردعمل
اس کے بعد گزشتہ رات پاکستان کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ افغانستان کی جانب سے ٹی ٹی پی اور دیگر فتنۃ الخوارج کی تشکیلوں کو پاکستان میں داخل ہونے میں مدد دینے کے لیے افغان فورسز نے ڈیورنڈ لائن پر کئی محاذوں پر ایک ساتھ جارحیت شروع کی۔ جس پر پاکستان نے پھرپور جوابی کارروائی کی اور افغان فورسز کی کئی پسٹیں تباہ کردیں اور بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
رات گئے افغانستان کی جانب سے کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا گیا، لیکن پاکستان کی جانب سے کارروائیاں صبح تک بدستور جا ری رہیں اور کئی اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جن میں دہشتگردوں کی بڑی تعداد کو ہلاک کر نے کا دعویٰ کیا گیا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان اس نوعیت کی کشیدگی سامنے آئی ہو۔ اس سے قبل اپریل 2022 میں بھی افغان طالبان نے الزام لگایا تھا کہ پاکستان نے کنڑ اور خوست کے علاقوں میں فضائی حملے کیے جن میں 20 بچوں سمیت کئی شہری جاں بحق ہوئے۔ اُس وقت بھی پاکستان نے ان حملوں کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی۔
پاکستان کو طویل عرصے سے یہ شکایت رہی ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے جنگجو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل کیے ہوئے ہیں اور وہاں سے سرحد پار دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔
اسلام آباد بارہا کابل سے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے، مگر افغان طالبان کا موقف ہے کہ ”یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے“ اور افغانستان اس میں ملوث نہیں۔
افغان طالبان کے 2021 میں برسراقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات میں مسلسل سرد مہری دیکھی جا رہی ہے۔ اگرچہ پاکستان نے طالبان حکومت کو سفارتی سطح پر نرم رویہ دکھایا تھا، مگر سرحد پار حملوں، اسمگلنگ، اور پناہ گزینوں کے تنازع نے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کو ایک خطرناک مرحلے میں داخل کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ کشیدگی سفارتی سطح پر حل نہ ہوئی تو یہ صورتِ حال خطے میں ایک نئی بداعتمادی کو جنم دے سکتی ہے، جس کا براہِ راست اثر دونوں ممالک کی سیکیورٹی اور اقتصادی حالات پر پڑ سکتا ہے۔
Aaj English















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔