Aaj News

جنگ بندی کے بعد اسرائیلی انخلا، بے گھر فلسطینی تباہ شدہ گھروں کی طرف لوٹنے لگے

اسرائیلی فوج غزہ کے اندر نئی پوزیشنز پر منتقل ہو کر تقریباً 53 فیصد علاقے پر کنٹرول برقرار رکھے گی
اپ ڈیٹ 10 اکتوبر 2025 07:36pm

اسرائیلی فوج کے جزوی انخلا کے بعد جمعے کو ہزاروں بے گھر فلسطینی اپنے تباہ شدہ گھروں کی طرف واپس لوٹنے لگے۔ کئی خاندان وہی راستے طے کر رہے ہیں جہاں سے وہ پہلے سمندر کے کنارے یا دوسرے محفوظ علاقوں کی طرف منتقل ہوئے تھے۔

دھول میں اٹی سڑکوں پر ایک لمبا قافلہ غزہ شہر کی جانب رواں دواں تھا، جو چند روز قبل شدید حملوں کا نشانہ بنا تھا۔ شیخ رضوان کے رہائشی اسماعیل زیدہ نے کہا، ”اللہ کا شکر ہے میرا گھر ابھی کھڑا ہے، مگر آس پاس سب کچھ تباہ ہو چکا ہے۔“

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اسرائیلی حکومت نے جمعے کی صبح غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی منظوری دے دی، جس کے ساتھ ہی 2 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے طے پانے والے اس معاہدے کے پہلے مرحلے کا آغاز ہو گیا ہے۔

معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں غزہ میں قید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے بدلے اسرائیل میں قید فلسطینی قیدیوں کو آزاد کرنا اور اسرائیلی افواج کا غزہ کے کچھ علاقوں سے جزوی انخلا شامل ہے تاہم فریقین کے درمیان اب بھی کئی پیچیدہ نکات پر اختلاف برقرار ہیں، جن کی وجہ سے ماضی میں بھی امن کی کوششیں ناکام رہی تھیں۔

حماس اور اسرائیلی کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تفصیلات

  • جمعے کی صبح اسرائیلی کابینہ کی منظوری کے فوراً بعد جنگ بندی نافذ کردی گئی ہے، اسرائیلی فوج کے مطابق دوپہر 12 بجے سے جنگ بندی مؤثر ہو گئی ہے۔

  • معاہدے کے تحت 24 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی افواج متعین کردہ لائنوں تک پیچھے ہٹ جائیں گی تاکہ غزہ کے شہریوں سے ممکنہ تصادم سے بچا جا سکے۔ اس جزوی انخلا کے باوجود اسرائیلی افواج غزہ کے تقریباً نصف علاقے پر قابض رہیں گی۔ اسرائیلی فوج نے تصدیق کی ہے کہ ”غزہ کے اندر آپریشنل پوزیشنز کو ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے۔“

  • معاہدے کے مطابق فوجی انخلا کے 72 گھنٹوں کے اندر تمام 48 یرغمالیوں کو غزہ سے رہا کر کے اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے حوالے کیا جائے گا۔ ان میں سے 20 کے زندہ ہونے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔

  • حماس نے بتایا کہ کچھ یرغمالیوں کی لاشوں کی بازیابی میں وقت لگ سکتا ہے کیوں کہ تمام تدفین کی جگہوں کا علم نہیں۔ اسرائیلی یرغمالی کوآرڈینیٹر گال ہرش کے مطابق، ایک بین الاقوامی ٹیم ان لاشوں کی تلاش میں معاونت کرے گی جنہیں حماس تلاش کرنے سے قاصر ہے۔

  • یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل 250 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جو سیکیورٹی الزامات میں سزا یافتہ یا زیر حراست ہیں، اس کے علاوہ جنگ کے دوران گرفتار ہونے والے 1,700 بالغ افراد اور 22 کم عمر قیدی اور 360 فلسطینی جنگجوؤں کی لاشیں بھی واپس کی جائیں گی۔

AAJ News Whatsapp

[enter link description here][1]
  • غزہ میں گرفتار فلسطینیوں کو واپس غزہ بھیجا جائے گا، جن قیدیوں پر اسرائیلیوں کے قتل کا الزام ہے، انہیں غزہ یا بیرونِ ملک بھیجا جائے گا اور انہیں مستقل طور پر مغربی کنارے یا اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔

  • معاہدے کے تحت غزہ میں انسانی امداد میں نمایاں اضافہ کیا جائے گا اور امدادی قافلوں کو غزہ کے شمال اور جنوب کے درمیان دو مرکزی شاہراہوں پر آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت ہوگی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق روزانہ 600 ٹرک امدادی سامان کے ساتھ غزہ میں داخل ہوں گے۔

  • ایک اسرائیلی سیکیورٹی اہلکار کے مطابق ان ٹرکوں میں زیادہ تر خوراک، طبی سامان، پناہ گاہوں کا سامان، ایندھن اور گھریلو گیس شامل ہوگی۔ اس کے علاوہ وہ سامان بھی لایا جائے گا جو پانی کی لائنوں، نکاسی کے نظام اور بیکریوں جیسی تباہ شدہ بنیادی تنصیبات کی مرمت کے لیے ضروری ہے۔

  • غزہ کے شہریوں کو مصر کے ساتھ ہم آہنگی کے تحت رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ سے نکلنے کی اجازت ہوگی، بشرطیکہ اسرائیل اجازت دے اور یورپی یونین کا مشن اس کی نگرانی کرے۔ اسی طرح غزہ کے رہائشیوں کو اسرائیل اور مصر کے درمیان طے شدہ طریقہ کار کے تحت واپس آنے کی بھی اجازت ہوگی۔

جنگ بندی کے ساتھ ہی غذائی اور طبی امداد کے ٹرک غزہ پہنچنے لگے تاکہ خیموں میں رہنے والے لاکھوں متاثرین کو ریلیف پہنچایا جا سکے۔ غزہ میں امدادی ٹرکس رفح بارڈر کراسنگ کے مصری پوائنٹس سے داخل ہوئے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے پہلے مرحلے کے مطابق اسرائیلی افواج کچھ بڑے شہری علاقوں سے پیچھے ہٹیں گی، مگر وہ اب بھی علاقے کا تقریباً نصف حصہ کنٹرول میں رکھیں گی۔

اسرائیلی وزیراعظم بن یامن نیتن یاہو نے کہا کہ فوج اس وقت تک رہے گی جب تک علاقہ غیر مسلح نہ ہو اور حماس ہتھیار نہ ڈال دے۔

مقامی سطح پر کچھ مقامات سے فوج پیچھے ہٹی تو کہیں ٹینکوں کی گولہ باری جاری رہی۔ خان یونس کے مشرقی علاقوں میں کچھ دستے واپس گئے، نصیرات کیمپ میں بھی بعض فوجی اپنی پوزیشنیں خالی کر کے سرحد کی جانب گئے۔ ساحلی شاہراہ سے غزہ سٹی تک جانے والے راستوں سے بھی عسکری پوزیشنیں ہٹائی گئیں۔

واپس جانے والوں میں مہدی سقالہ کا کہنا ہے کہ ”گھر تو بچا نہیں، مگر اپنے ملبے تک پہنچ جانا بھی تسکین ہے۔“ کئی خاندان ملبے میں رہ گیا سامان یا دیواروں پر لکھے نام دیکھ کر اپنے گھر تلاش کر رہے تھے۔

حماس کے جلاوطن رہنما خلیل الحیہ نے کہا کہ انہیں امریکہ اور دیگر ثالثوں کی جانب سے جنگ ختم ہونے کی ضمانت ملی ہے اور معاہدے کے تحت اسرائیل تقریباً دو ہزار فلسطینی قیدی رہا کرے گا، سرحدی راستے کھولے جائیں گے اور انسانی امداد کو مکمل رسائی دی جائے گی۔

اس جنگ نے مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھائی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اثر ڈالا۔ گذشتہ دو سال کے دوران اندازاً 67,000 سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوئے ہیں۔ حماس کے حملے (7 اکتوبر 2023) میں تقریباً 1,200 افراد مارے گئے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا تھا۔

اب بھی تقریباً 20 اسرائیلی یرغمالیوں کے زندہ ہونے کی امید ہے، جبکہ 26 کی موت کا شبہ ہے اور دو کے بارے میں معلومات نہیں۔

اسرائیلی کابینہ نے جمعے کی صبح اس جنگ بندی اور یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے کا ”خاکہ“ منظور کیا۔ کابینہ اجلاس میں امریکی نمائندہ خصوصی سٹیو وِٹکوف اور جیرڈ کشنر بھی شریک تھے۔

ایک اسرائیلی سرکاری اہلکار نے بتایا کہ منظوری کے فوری بعد جنگ بندی شروع ہو جانی چاہیے اور فوج کو آئندہ 24 گھنٹوں میں متفقہ حد تک پیچھے ہٹنا ہوگا۔

ادھر، اسرائیلی پولیس نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیر کو ہونے والے دورہ اسرائیل کے موقع پر سخت سیکیورٹی انتظامات کیے جائیں گے۔ پولیس کے مطابق ہزاروں اہلکار سڑکوں پر تعینات ہوں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ یروشلم اور ملک کے وسطی حصوں کی طرف جانے والی کچھ سڑکیں بند رہیں گی، جبکہ تل ابیب کے بین گوریون ایئرپورٹ اور یروشلم کے فضائی حدود میں کسی بھی ڈرون یا ہوائی جہاز کے استعمال پر پابندی ہوگی۔

Israel

Gaza

Benjamin Netanyahu

release of hostages

ISRAELI CABINET

President Donald Trump

approves

Trump’s plan

Netanyahu Government

for Gaza ceasefire

held by hamas