پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان کشیدگی برقرار، اسپیکر کے چیمبر میں ہونے والی ملاقات بے نتیجہ ختم
پنجاب اور سندھ حکومتوں کے درمیان سیلاب متاثرین کی امداد کے معاملے پر لفظی جنگ کے خاتمے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان ہونے والے مذاکرات بے نتیجہ ختم ہو گئے۔
پیپلز پارٹی نے پیر کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کیا ہے، اسی دوران حکومت نے اتحادی جماعت کو منانے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے چیمبر میں دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ملاقات ہوئی۔
اس ملاقات کی تفصیلات تو منظرعام پر نہیں آئیں البتہ وفاقی وزیر رانا ثنااللہ نے تصدیق کی ہے کہ پیپلز پارٹی اپنا احتجاج اور پارلیمنٹ سے واک آؤٹ جاری رکھے گی۔
رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے وزیراعلیٰ پنجاب کی معافی کا کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی پیر کو صدر آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقات طے تھی، تاہم وزیراعظم کے دورۂ ملائیشیا کے باعث یہ ملاقات ممکن نہیں ہو سکی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم منگل کو وطن واپس آ کر پیپلز پارٹی کے تحفظات پر بات چیت کریں گے اور معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ پنجاب میں آنے والے حالیہ سیلاب کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان سیلاب متاثرین میں امداد کی تقسیم کے معاملے پر تنازع شروع ہوا تھا۔
پیپلز پارٹی کا اصرار تھا کہ سیلاب متاثرین کو بے نظیر انکم اسپورٹ کے ذریعے امداد تقسیم کی جائے، اس پر پنجاب حکومت نے مخالفت کی تھی جس کے بعد دونوں جماعتوں کی جانب سے لفظی جنگ کا آغاز ہوا جو اَب بھی جاری ہے۔
اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے صدر آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو ٹیلیفون کر کے کراچی طلب کر لیا ہے، تاکہ سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان جاری کشیدگی کے معاملے پر بات چیت کی جا سکے۔
ادھر، پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلسل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے واک آؤٹ کیا جا رہا ہے۔ بدھ کے روز بھی سینیٹ اجلاس کے دوران پیپلزپارٹی کے سینیٹرز نے ایوان کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔
اجلاس کے دوران سینیٹر شیری رحمان نے ن لیگ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اتحاد تذلیل سے نہیں چلتے اور معافی مانگنے سے عزت میں کمی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کا حال دیکھیں، زراعت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور کوئی صوبہ کسی کی جاگیر نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کچھ توڑنا نہیں چاہتے لیکن ہمیں ہلکا نہ لیا جائے۔ شیری رحمان نے واضح کیا کہ بلاول بھٹو نے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کیا، بی آئی ایس پی کے استعمال اور عالمی امداد کی اپیل کی اور پیپلز پارٹی کو اس معاملے پر شدید تحفظات ہیں۔
شیری رحمان نے مزید کہا کہ ہماری قیادت پر انگلی اٹھی، ریڈ لائن کراس ہوئی۔ وفاق کو اس وقت استحکام کی ضرورت ہے اور ہم نفرت کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے۔
ایوانِ بالا میں پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بھی خطاب کے دوران مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ دونوں جماعتیں ڈھٹائی سے مقابلہ کر رہی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہمیں ٹرافی دو، میں ان کو جھوٹ، بے حسی اور نااہلی کی ٹرافی دیتا ہوں۔
علی ظفر نے کہا کہ سیلاب سے کسانوں کا بہت نقصان ہوا، فصلیں اور مویشی بہہ گئے، لوگ کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں۔ حکومت اپنے ہی اتحادی سے لڑ رہی ہے جبکہ متاثرین کو امداد نہیں مل رہی، شاید یہ امداد جیبوں میں چلی گئی ہے۔ انہوں نے تنقید کی کہ کارکردگی صرف دکھاوا ہے اور یہ لوگ قوم کی نہیں، اپنی سیاست کی فکر میں لگے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے بھی اظہارِ خیال کیا، انھوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی عدم اعتماد لائے، ہم سپورٹ کریں گے، یہ فرینڈلی فائرنگ کررہے ہیں۔
یاد رہے کہ ہفتے کے روز جاتی امرا لاہورمیں مسلم لیگ ن کی قیادت نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کی اہم ملاقات ہوئی جس میں پیپلز پارٹی کے ساتھ سیز فائر پر اتفاق کیا گیا، ملاقات میں باہمی مشاورت کے ذریعے اختلافات کو مرحلہ وار ختم کرنے پر زور دیا گیا تھا۔
وزیراعلٰی پنجاب مریم نواز کا کہنا تھا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) سے مدد لینے کا کہا گیا ہے، مجھےغریب افراد کا ڈیٹا نہیں چاہیے، سیلاب متاثرین کا ڈیٹا چاہیے، انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ مریم نواز کیوں معافی مانگے، سیلاب کے دوران تنقید کرنے والے ترجمان معافی مانگیں۔
مریم نواز کے بیانات کے بعد پی پی اور ن لیگ میں تناؤ بڑھ گیا تھا، یکم اکتوبر کو اس کشیدگی کو ختم کرانے کے لیے دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کی بیٹھک ہوئی تھی۔ دونوں جماعتوں نے تمام مسائل افہام و تفہیم سے حل کرنے اور لفظی جنگ بند کرنے پر اتفاق کیا تھا، تاہم پیر کے روز دوبارہ اسپیکر قومی اسمبلی کے چیمبر میں ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔