اسرائیل نواز ارب پتیوں سے ابو ظہبی کے شہزادوں تک: ٹک ٹاک کے نئے مالکان کون؟
امریکا اور مشرق وسطیٰ کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت سامنے آئی جب معروف سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹک ٹاک کے امریکی حصے کو ایک نئے کنسورشیم کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ ڈیل 14 ارب ڈالر کے عوض طے پائی ہے اور اس کا سہرا براہِ راست امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سر جاتا ہے۔ بظاہر اسے قومی سلامتی اور ڈیٹا پرائیویسی کا معاملہ قرار دیا جا رہا ہے، لیکن حقیقت میں یہ سودہ طاقت، اثر و رسوخ اور بالخصوص اسرائیل کے بیانیے کو کنٹرول کرنے سے جڑا ہوا ہے۔
امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل“ کے مطابق، ٹک ٹاک نے غزہ پر اسرائیلی حملوں کی تباہ کن تصاویر اور ویڈیوز براہِ راست امریکی عوام تک پہنچا کر رائے عامہ کو بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پہلی بار لاکھوں نوجوان امریکی فلسطینیوں کی آواز براہِ راست سننے لگے، جس نے واشنگٹن میں اسرائیل نواز لابی کو سخت پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ اسی دباؤ نے بالآخر بائٹ ڈانس کو مجبور کیا کہ وہ اپنے امریکی اثاثے بیچ دے۔
ٹک ٹاک کی متبادل 5 زبردست اور دلچسپ ایپلی کیشنز
ٹک ٹاک پر حملے کیوں؟
2024 میں امریکی کانگریس نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت بائٹ ڈانس کو ٹک ٹاک کے امریکی حصے سے دستبردار ہونا لازمی قرار دیا گیا، بصورتِ دیگر ایپ پر مکمل پابندی لگ جاتی۔ 2025 کے آغاز میں سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلے کو برقرار رکھا۔
قانون سازوں نے اسے چین سے متعلق سیکورٹی کا معاملہ قرار دیا، لیکن اصل وجہ غزہ کی جنگ کے دوران ٹک ٹاک پر سامنے آنے والا وہ مواد تھا جس نے اسرائیل کے خلاف عالمی سطح پر ہمدردیاں بڑھا دیں۔ امریکی سینیٹر جوش ہالی، مارکو روبیو اور دیگر نے کھلے عام ٹک ٹاک کو ”فلسطینی نواز اور اسرائیل مخالف“ بیانیے کا مرکز قرار دیا۔
نئی ڈیل کی تفصیلات
عرب میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے ستمبر 2025 میں ایگزیکٹو آرڈر جاری کرتے ہوئے بائٹ ڈانس کو امریکی اثاثے فروخت کرنے پر مجبور کیا اور چین سے معاہدہ کیا۔
ٹرمپ کے دستخط کردہ معاہدے کے مطابق، ٹک ٹاک امریکا کا انتظام سات رکنی بورڈ کے پاس ہوگا، جن میں سے چھ ارکان امریکی ہیں جن کا تعلق سائبر سیکورٹی اور قومی سلامتی کے شعبوں سے ہے، جبکہ ایک نشست ایم جی ایکس کو دی گئی ہے۔
نئی کمپنی کی مالیت 14 ارب ڈالر لگائی گئی ہے، جو بائٹ ڈانس کی 330 ارب ڈالر کی عالمی مالیت کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ ٹرمپ نے اس معاہدے کو امریکی خودمختاری کی فتح قرار دیتے ہوئے صحافیوں سے کہا، ’یہ مکمل طور پر امریکی انتظام میں چلایا جائے گا۔‘
اس معاہدے کے تحت:
-
بائٹ ڈانس کی ایپ میں ملکیت 20 فیصد سے کم ہوگئی۔
-
امریکی سرمایہ کاروں نے 65 فیصد سے زائد حصہ حاصل کر لیا۔
-
اوریکل، سلور لیک اور ابو ظہبی کے شاہی خاندان کا کنسورشیم ”ایم جی ایکس“ تقریباً 45 فیصد شیئرز کے مالک بن گیا۔
-
امریکی صارفین کا ڈیٹا اب اوریکل کے سرورز پر محفوظ ہوگا، جبکہ ایپ کا ریکمنڈیشن انجن بھی امریکی کنٹرول میں آ گیا۔
اسرائیل سے جڑے نئے مالک
اس ڈیل میں سب سے نمایاں کردار اوریکل کے شریک بانی لیری ایلیسن کا ہے، جو اسرائیل کے قریبی ترین سرمایہ کاروں میں شمار ہوتے ہیں۔
اوریکل کے سی ای او سفرا کیٹس کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ ’جو ملازم اسرائیل کی حمایت نہیں کرتا، وہ اوریکل کا حصہ نہیں رہ سکتا۔‘
یہ کمپنی اسرائیل کو فوجی ساز و سامان اور ڈیجیٹل سیکورٹی میں مدد فراہم کرتی رہی ہے۔
اسی کنسورشیم میں روپرٹ مرڈوک اور ان کے بیٹے بھی شامل ہیں، جن کے میڈیا ادارے فاکس نیوز اور نیویارک پوسٹ مسلسل اسرائیل کے حق میں اور فلسطینیوں کے خلاف مہم چلاتے ہیں۔
ڈیل ٹیکنالوجیز کے بانی مائیکل ڈیل بھی اس سرمایہ کاری کا حصہ ہیں۔ ان کا ادارہ اسرائیلی فوج کو ڈیٹا اور اے آئی سہولتیں فراہم کرتا رہا ہے۔
ابو ظہبی کے ولی عہد کے بھائی شیخ طحنون بن زايد کے زیر انتظام ”ایم جی ایکس“ نے بھی 15کمپنی میں فیصد حصہ لیا ہے، جس سے خلیجی حکمران خاندان براہِ راست اس منصوبے میں شریک ہو گیا ہے۔
غزہ اور فلسطینی آوازوں پر اثرات
ان نئے مالکان کے اسرائیل نواز پس منظر نے انسانی حقوق کی تنظیموں کو خدشات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ جس طرح میٹا اور دیگر پلیٹ فارمز پر فلسطینی مواد دبایا گیا، ویسا ہی انجام ٹک ٹاک کا بھی ہو سکتا ہے۔
ایک ایپ جو کل تک غزہ کے بچوں کی چیخیں اور فلسطینی عوام کی اصل کہانیاں دنیا تک پہنچا رہی تھی، اب شاید اسرائیل کے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال ہو۔
عام صارفین کے لیے کیا بدلے گا؟
ظاہری طور پر صارفین کے تجربے میں فوری تبدیلی نہیں آئے گی۔ ویڈیوز، تفریح اور کلچر کا مواد حسبِ سابق جاری رہے گا۔ مگر اصل فرق ”ماڈریشن“ میں ہوگا۔ اسرائیل پر تنقید یا فلسطینیوں کے حق میں مواد کو مستقبل میں زیادہ سخت سنسرشپ کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اس کا مطلب کیا ہے؟
امریکا میں ٹک ٹاک کے 18 کروڑ صارفین ہیں، جن میں زیادہ تر نوجوان ہیں اور یہی طبقہ غزہ پر اسرائیلی جنگ کا سب سے بڑا ناقد بھی ہے۔
یہ ڈیل اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینیوں کی آواز جس پلیٹ فارم سے دنیا تک پہنچی، اسی کو طاقتور اسرائیل نواز سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا تاکہ اس بیانیے کو خاموش کرایا جا سکے۔
صدر ٹرمپ نے اسے امریکی خودمختاری کی جیت قرار دیا، لیکن مبصرین کے مطابق یہ دراصل اسرائیل اور اس کے حامیوں کی سب سے بڑی کامیابی ہے، جنہوں نے نوجوان نسل کی واحد سوشل میڈیا آواز بھی قابو کر لی۔
Aaj English



















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔