’خفیہ فائلوں تک رسائی، وزیراعظم کے ساتھ اقوام متحدہ کا سفر‘: خواجہ آصف اور دفتر خارجہ وفد میں شامل خاتون سے لاعلم
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران پاکستانی وفد میں شامل خاتون شمع جونیجو کی موجودگی پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ خاتون خود کو دفاعی تجزیہ کار قرار دیتی ہیں اور بعض حلقے ان پر اسرائیل کی حمایت کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے جمعے کو جب جنرل اسمبلی سے خطاب کیا تو شمع جونیجو ان کے پیچھے نشست پر بیٹھی تھیں۔ ان کی یہ تصویر سامنے آئی تو سوشل میڈیا صارفین نے اتنے اہم دورے اور پھر جنرل اسمبلی میں اہم نشست پر متنازع شخصیت کی موجودگی پر سوالات اٹھا دیے۔
ڈاکٹر شمع جونیجو ایک برطانوی نژاد پاکستانی سیاسی تجزیہ کار، صحافی اور وکیل ہیں جو پاکستانی سیاست پر اپنی تبصروں کی وجہ سے جانی جاتی ہیں۔ عسکری اخلاقیات میں پی ایچ ڈی اور صحافت میں خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز حاصل کرنے والی شمع جونیجو اکثر متنازع رہی ہیں۔
شمع جونیجو کو متنازع شخصیت سمجھا جاتا ہے، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دفاعی اور خارجہ پالیسی کے معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتی رہی ہیں اور ماضی میں پاکستان اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر لانے کی حمایت بھی کر چکی ہیں۔ انہیں اس اہم دورے پر پاکستانی وفد کا حصہ بنانے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
تنقید میں شدت آںے کے بعد وزیر دفاع خواجہ آصف نے شمع جونیجو سے کسی بھی قسم کی شناسائی سے انکار کر دیا ہے، جبکہ دفتر خارجہ نے بھی شمع جونیجو سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
شمع جونیجو کی اس تصویر کے بعد خواجہ آصف نے انہیں پہچاننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ دفتر خارجہ کا تھا کہ کون کس نشست پر بیٹھے گا۔
ایکس پر جاری اپنے بیان میں وزیر دفاع نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ خاتون کون ہیں، کیوں وفد کا حصہ ہیں اور انہیں میرے پیچھے کیوں بٹھایا گیا؟ ان سوالات کے جواب صرف دفتر خارجہ دے سکتا ہے۔‘
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے جذباتی انداز اپنالیا، ڈائس پر مکّے برسادیے
خواجہ آصف نے واضح کیا کہ فلسطین کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ ذاتی اور جذباتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میرے فلسطین کے ساتھ تعلقات ساٹھ سال پر محیط ہیں، ابو ظہبی بینک میں کام کے دوران میرے فلسطینی دوست بنے اور آج بھی ان کے ساتھ تعلق قائم ہے۔ اسرائیل اور صیہونیت کے بارے میں میرے خیالات نفرت کے سوا کچھ نہیں۔‘

دوسری جانب دفتر خارجہ نے بھی شمع جونیجو سے اظہارِ لاتعلقی کر دیا ہے۔
دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’وزارتِ خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں وزیر دفاع کے پیچھے ایک خاتون کی نشست کے حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کا نوٹس لیا ہے۔‘
دفتر خارجہ نے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’متعلقہ خاتون کا نام پاکستان کے وفد کے لیے 80ویں جنرل اسمبلی اجلاس کے اس سرٹیفکیٹ (Letter of Credence) میں شامل نہیں تھا، جس پر نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ نے دستخط کیے تھے۔ لہٰذا وزیر دفاع کے پیچھے ان کی نشست کو نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ کی منظوری حاصل نہیں تھی۔‘

نیتن یاہو کا خطاب زبردستی غزہ میں نشر، فوجیوں کی ماؤں نے ”پاگل پن“ قرار دے دیا
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سلامتی کونسل میں لی گئی ان کی تصویر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل سامنے آیا۔
کاتون صحافی عائشہ صدیقہ نے لکھا کہ ’وزیراعظم شہباز شریف کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ (شمع جونیجو) نیتن یاہو کے بارے میں کیا کہتی ہیں‘۔

سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان کی نمائندگی اسرائیل نواز فرد کو سونپ دینا پاکستانیوں کی توہین ہے‘۔

خاتون صحافی مہوش قماس خان نے وزیر دفاع کے اظہار لاعلمی پر شمع جونیجو کے ساتھ ان کی تصویر شیئر کرتے ہوئے اپنی طنزیہ پوسٹ میں لکھا، ’خواجہ آصف شمع جونیجو کو نہیں جانتے‘۔

تنقید کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شمع جونیجو ماضی میں اسرائیل کے حق میں بیانات دیتی رہی ہیں۔

وزیر دفاع اور دفتر خارجہ کی جانب سے اظہار لاعلمی سے قبل شمع جونیجو نے دعویٰ کیا تھا کہ ناصرف وہ وزیراعظم کے ساتھ ان کے جہاز میں اقوام متحدہ گئیں، بلکہ انہیں وزیراعظم کی تقاریر لکھنے کا کام بھی سونپا گیا تھا۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کی رسائی خفیہ حکومتی دستاویزات تک تھی۔

ڈاکٹر شمع جونیجو نے خود پر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’انڈین اور اسرائیلی لابی کا یہ سارا مقصد وزیراعظم صاحب کی اقوام متحدہ میں تاریخی تقریر اور صدر ٹرمپ سے ملاقات سے توجہ ہٹانا ہے‘۔

انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم کے اقوام متحدہ میں خطاب کے موقع پر پاکستانی وفد کے واک آؤٹ کی ایک ویڈیو بھی شئیر کی اور لکھا کہ ’جنگی مجرم نیتن یاہو کے جنرل اسمبلی میں داخلے پر ہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے واک آؤٹ کر گئے‘۔
Aaj English















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔