ایک جج اپنی ہی عدالت کے دوسرے جج کے خلاف آرڈر جاری نہیں کرسکتا: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے سابق ڈپٹی رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے پریکٹس اینڈ پروسیجر اور کمیٹی ممبران کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی کالعدم قرار دے دی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ ایک جج اپنی ہی عدالت کے دوسرے جج کےخلاف آرڈر جاری نہیں کر سکتا۔
بدھ کے روز سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں سابق ڈپٹی رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جب کہ 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس جمال مندوخیل نے تحریر کیا ہے۔
تحریری فیصلہ جسٹس جمال خان مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے دیا، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل تھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریگولر بینچ کو آئینی ترمیم کے بعد مقدمات سننے کا اختیار نہیں تھا، پارلیمنٹ کی 26ویں آئینی ترمیم کے بعد کیسز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتے ہیں، ریگولر بینچ کے 21 اور 27 جنوری کے احکامات مؤثر نہیں رہے، آرٹیکل 204 کے تحت ججز ایک دوسرے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کرسکتے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ججز کو آئینی تحفظ حاصل ہے، صرف سپریم جوڈیشل کونسل کارروائی کرسکتی ہے، ججز کے مابین توہین عدالت کارروائی انصاف کے نظام کو نقصان پہنچائے گی۔
تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ سوال یہ ہے کہ آئینی اور ریگولر کمیٹی میں شامل ججز کے خلاف توہین عدالت کاروائی ممکن ہے یا نہیں، آرٹیکل 199 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججز کو انتظامی امور میں استثنی حاصل ہے، ججز کو اندرونی اور بیرونی مداخلت سے تحفظ دیا گیا ہے، ایک جج اپنی ہی عدالت کے کسی جج کیخلاف کسی قسم کی رٹ یا کاروائی نہیں کر سکتا۔
محمد اکرام چوہدری کیس فیصلے کے مطابق ججز کے خلاف کارروائی ممکن نہیں، عدلیہ جمہوری ریاست میں قانون کی حکمرانی کے محافظ کے طور پر بنیادی ستون ہے، یہ بات طے شدہ ہے کہ سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کا جج اسی عدالت کے جج کے سامنے جوابدہ نہیں۔
فیصلے کے مطابق جب اعلی عدلیہ کا جج اپنے جج کے خلاف رٹ جاری نہیں کر سکتا تو توہین عدالت کی کاروائی کیسے کر سکتا ہے، سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ جج کے خلاف کارروائی صرف سپریم جوڈیشل کونسل کر سکتی ہے، آرٹیکل 209 جوڈیشل کونسل کے علاوہ کسی اور فورم پر جج کیخلاف کاروائی پر قدغن لگاتا ہے۔
واضح رہے کہ رواں سال 21 جنوری کو سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو عہدے سے ہٹانے کا اعلامیہ جاری کیا تھا جب کہ اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نے آئینی بینچ کا مقدمہ غلطی سے ریگولر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا، نتیجتاً سپریم کورٹ اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔
خیال رہے کہ وفاق نے ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف توہین عدالت کیس کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کی تھی، جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
وفاق نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ اپیل میں موقف اپنایا تھا کہ 2 رکنی بینچ کا 27 جنوری کا فیصلہ اختیار سے تجاوز ہے، مرکزی مقدمے میں بھی بینچ کےدائرہ اختیار پر اعتراض اٹھایا تھا۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کےبعد ریگولربینچ قانون چیلنج کرنے پر مبنی مقدمہ نہیں سن سکتا، کسی بینچ کو اختیار نہیں کہ بینچ تشکیل دینےکا حکم دے، فیصلے میں سپریم کورٹ ججز کمیٹی کو عملی طور پر غیرفعال کردیا گیا۔
واضح رہے کہ 27 جنوری کو سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذرعباس کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا تھا اور جوڈیشل کمیٹیز کے اختیار پر فل کورٹ تشکیل دینے کے لیے فائل چیف جسٹس کو ارسال کردی تھی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نے جان بوجھ کر عدالتی احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی، ایسا ثبوت نہیں ملا جس سے ظاہر ہو کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا مقدمے سے کوئی ذاتی مفاد ہے، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کی جانب سے بدنیتی کا ثبوت نہیں ملا، ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے خلاف توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لیا جاتا ہے۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔