دیامر میں 15 سیاح دو روز بعد بھی لاپتا، ڈاکٹر فیملی کے افراد کی دو میتیں لودھراں روانہ
دیامر میں کلاؤڈ برسٹ کے بعد سیلاب میں بہہ جانے والے پندرہ سیاح دوسرے روز کی تلاش کے بعد بھی نہ مل سکے۔ اس اندوہناک سانحے میں لودھراں کی ڈاکٹر فیملی کے بیشتر افراد لاپتہ ہیں۔ 22 افراد پر مشتمل یہ خاندان کوسٹر میں سوار تھا جو اچانک پہاڑ سے آنے والے سیلاب کی نذر ہوا۔ سیلاب سے شاہراہ ناران کاغان بابو سر کا 8 کلومیٹر کاعلاقہ شدید متاثر ہوا۔ گلگت میں پھنسے سیاحوں کو بھی آج سی ون تھرٹی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔
دیامر میں کلاؤڈ برسٹ کے بعد شدید تباہی دیکھنے میں آئی ہے، جہاں سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے 15 سیاحوں کی تلاش تاحال جاری ہے، تاہم دو روز گزرنے کے باوجود انتظامیہ کو کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔
ترجمان گلگت بلتستان حکومت فیض اللہ فراق کے مطابق 10 سے 15 سیاحوں کے لاپتا ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی ہدایت پر ریسکیو، ضلعی انتظامیہ، پولیس، مقامی رضاکاروں اور پاک فوج کی مدد سے مشترکہ سرچ آپریشن لاپتا افراد کے ملنے تک جاری رہے گا۔
ملک بھر میں حالیہ بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں اموات کی مجموعی تعداد 252 ہو گئی
فیض اللہ فراق کے مطابق شاہراہِ قراقرم اور شاہراہِ ریشم پر مختلف مقامات پر راستے دوبارہ بند ہو چکے ہیں، جس کے باعث ہزاروں سیاح مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ تاہم بابوسر پر پھنسے کچھ سیاحوں کو بحفاظت چلاس منتقل کر دیا گیا ہے۔
ترجمان کے مطابق سڑکوں کی بحالی کا کام جاری ہے اور صوبائی حکومت امدادی سرگرمیوں کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان گلبر خان جلد متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔ گلگت بلتستان حکومت کے ترجمان نے تصدیق کی کہ ابتک تقریباً 250 سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایبٹ آباد، ہری پور میں لینڈ سلائیڈنگ سے سڑکیں بند، سیاحوں کیلئے الرٹ جاری
فیض اللہ فراق نے کہا کہ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے شاہراہ بابو سر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، آٹھ کلومیٹر کا علاقہ برباد ہوگیا ہے، غذر، استور، تھور ویلی میں سیلاب سے مکانات اور فصلیں تباہ ہوگئیں۔ ترجمان کے مطابق شاہراہ ناران اور بابو سر تیرہ سے چودہ مقامات پر بند ہے، شاہراہ قراقرم بھی بحالی کے بعد مختلف مقامات پر پھر بلاک ہوگئی ہے۔ شاہراہ ریشم پر سیکڑوں مسافر پھنسے ہوئے ہیں، جہاں بحالی کا کام جاری ہے۔
آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران کہاں کہاں موسلادھار بارشیں ہوں گی؟ بڑی پیشگوئی
فیض اللہ فراق نے مزید بتایا کہ چلاس میں سیاحوں کے لیے مفت رہائش کا بندوبست کر دیا گیا ہے، جبکہ مقامی آبادی کے نقصانات کا بھی تخمینہ لگایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رات کی تاریکی میں سرچ آپریشن میں دشواریوں کا سامنا ہوتا ہے، اس لیے کارروائی کو دن کی روشنی میں دوبارہ شروع کیا جاتا ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ فوٹیج میں دکھائی دینے والی تمام گاڑیوں کے سیاح محفوظ ہیں۔ ضلع استور کے علاقے بولن میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچائی جس کے نتیجے میں ایک خاتون جاں بحق ہو گئی۔ دیوسائی میں پھنسے تمام سیاحوں کو بھی ریسکیو کر لیا گیا ہے، جبکہ دیامر تھور اور ضلع غذر میں ریلیف اور امدادی سرگرمیاں تیزی سے جاری ہیں۔
گلگت بلتستان میں پھنسے سیاحوں کو سی ون 30 طیارے میں اسلام آباد پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ڈپٹی کمشنر گلگت کے مطابق پاک فضائیہ کا سی ون 30 طیارہ آج گلگت آئے گا، پھنسے ہوئے سیاح انتظامیہ سے رابطہ کریں۔
ترجمان گلگت بلتستان نے کہا کہ وزیراعظم کی جانب سے سیلابی تباہ کاریوں کا نوٹس لینا خوش آئند ہے، وزیراعظم پاکستان سے مزید توجہ اور تعاون کی امید ہے، وفاقی حکومت کا تعاون آکسیجن کا کام دے گا، شاہراہ بابوسر پراربوں کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔
بابوسرٹاپ کلاؤڈ برسٹ میں 13 سال بعد ملنے والا لودھراں کا خاندان پھر بچھڑ گیا
بابوسر ٹاپ پر سیلابی ریلے کی زد میں لودھراں کی ڈاکٹر فیملی کے بیشتر افراد لاپتا ہیں۔ 22 افراد پر مشتمل یہ خاندان کوسٹر میں سوار تھا جو اچانک پہاڑ سے آنے والے سیلاب کی نذر ہوا۔ 13 سال بعد بیرون ملک سے پاکستان آنے والی دو بہنیں بھی لقمہ اجل بنیں۔ ڈاکٹر مشعل اور فہد اسلام بھی خونی لہروں کی نذر ہوگئے۔
جاں بحق فہد اسلام کے بیٹے نے آنکھوں دیکھا حال بتایا کہ ہم پہاڑ کے نیچے چھپ رہے تھے۔ والد چچی اور تین سالہ کزن کو بچاتے ہوئے لہروں کے ساتھ چلے گئے۔
بابوسرٹاپ پر سیلاب کی زد میں آ کر جاں بحق ہونے والے ایک ہی خاندان کے دو افراد کی میتیں چلاس روانہ کر دی گئیں، میتوں کو آج صبح لودھراں پہنچایا جائے گا۔
غذر میں طوفانی بارشوں اور سیلاب سے تباہی، درجنوں مکانات اور فصلیں متاثر
غذر میں طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کے باعث کئی علاقوں میں سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی۔ گاہکوچ کے نواحی دیہات کانچے اور سلپی میں آسمانی بجلی گرنے اور شدید بارش کے بعد ایک درجن کے قریب رہائشی مکانات سیلاب کی نذر ہوگئے، جبکہ اسی فیصد کھڑی فصلیں بھی بہہ گئیں۔
انتظامیہ کی جانب سے سڑک کی بحالی اور امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔
متاثرین نے وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں اور نقصانات کا فوری نوٹس لیں۔ متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت فوری طور پر معاوضہ فراہم کرے تاکہ وہ اپنے مکانات کی بروقت تعمیر کر سکیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق مون سون بارشوں کے پیش نظر 25 جولائی تک مزید خطرات کا خدشہ ہے، جس کے لیے انتظامیہ کو الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔