ایران اب بھی شمالی کوریا کی مدد سے خفیہ مقام پر ایٹمی ہتھیار تیار کر سکتا ہے، ماہر کا انتباہ
پراگ انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز کے سینئر محقق، ازریئل برمانٹ نے خبردار کیا ہے کہ ایران اب بھی کسی خفیہ اور غیر اعلانیہ مقام پر ایٹمی ہتھیار تیار کر سکتا ہے، جہاں امریکی اور اسرائیلی انٹیلیجنس کی رسائی نہ ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب کو ایران کی پوشیدہ ایٹمی تنصیبات کے امکانات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
یہ انتباہ اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکہ نے حالیہ میزائل جھڑپ کے بعد ہفتے کی رات ایران کے تین بڑے جوہری مراکز فردو، نطنز اور اصفہان پر فضائی حملے کیے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا، لیکن اطلاعات کے مطابق جنگ بندی کی خلاف ورزی کے خدشات اب بھی موجود ہیں۔
برمانٹ کے مطابق، اگرچہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ کہنا غلط ہوگا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا، ’ایران کا پروگرام متاثر ضرور ہوا ہے، مگر تباہ نہیں ہوا۔ کئی ماہرین کے مطابق، ایران نے ممکنہ طور پر حملے سے قبل کم از کم 400 کلوگرام اعلیٰ افزودہ یورینیم محفوظ مقام پر منتقل کر دیا تھا۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ ایران کے پاس یورینیم موجود ہو، لیکن اسے ایٹم بم بنانے کے لیے دھات کی صورت میں تبدیل کرنا ہوگا، جس کے لیے مخصوص سہولیات درکار ہیں اور یہ ممکن ہے کہ ایسی خفیہ تنصیبات ایران کے پاس موجود ہوں۔
ایران کا عالمی جوہری ادارے سے تعاون معطل، یورینیم افزودگی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان
برمانٹ نے مزید انکشاف کیا کہ نطنز کے قریب زمین پر ایک اور مقام بھی موجود ہے جو امریکی حملے میں تباہ نہیں ہوا۔ اگر ایران نیوکلیئر نان پرولیفریشن ٹریٹی (این پی ٹی) سے دستبردار ہو جاتا ہے تو وہ بین الاقوامی معائنہ کاروں کو ملک سے نکال سکتا ہے، جس سے ان سرگرمیوں پر نظر رکھنا مزید مشکل ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا، ’میرے خیال میں ایران کے لیے خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار تیار کرنا بہت مشکل ہوگا، لیکن ناممکن نہیں۔ البتہ موجودہ حملوں نے ایران کی اس صلاحیت کو وقتی طور پر مؤخر ضرور کر دیا ہے۔‘
روس نے امریکی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ایران کی حمایت کا اعلان کیا ہے، تاہم برمانٹ کا کہنا ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے شمالی کوریا سے تعاون حاصل کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق، اگرچہ ایسا امکان کم ہے، لیکن مکمل طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا، ’ایران کے اتحادیوں میں روس، چین اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ روس کا ایران سے اسٹریٹجک تعاون ہے، لیکن اس جنگ میں فوجی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ روس فی الوقت یوکرین میں الجھا ہوا ہے، اس لیے وہ ایران کو ایٹمی ہتھیار دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ چین بھی ایران کا اتحادی ہے، لیکن میرا نہیں خیال کہ چین ایران کی ایٹمی مدد کرے گا۔‘
برمانٹ نے مزید کہا کہ ’تاہم شمالی کوریا ایک مختلف معاملہ ہے، کیونکہ اس کا ماضی میں ایران کے ساتھ میزائل ٹیکنالوجی پر تعاون رہا ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں کسی نہ کسی شکل میں ایران اور شمالی کوریا کا تعاون ہو، اگرچہ میرے خیال میں یہ بھی آسان نہیں ہوگا۔‘
Aaj English

















اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔