Aaj News

جمعہ, اپريل 26, 2024  
17 Shawwal 1445  

از خود نوٹس کی تیسری سماعت: الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے صدر بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس

4 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا، سپریم کورٹ
اپ ڈیٹ 28 فروری 2023 10:25am

سپریم کورٹ کا پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات میں تاخیر پرازخود نوٹس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا۔

سپریم کورٹ میں پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کی تیسری سماعت آج صبح 10 کے لیے شیڈول تھی جو دوپہر ڈیڑھ بجے تک شروع نہ ہوسکی۔

دوپہر ایک بجے ذرائع سے خبر سامنے آئی تھی کہ سماعت سے قبل سپریم کورٹ کے ججز کا غیر رسمی اجلاس جاری ہے، جس کے باعث ازخود نوٹس کی سماعت تاخیر کا شکار ہے۔

دوپہر 1 بجکر 35 منٹ پر خبر سامنے آئی کہ انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ ٹوٹ گیا۔ اور 4 ججز جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس اطہر من اللہ نے خود کو بینچ سے الگ کرلیا۔

لارجر بینچ کے 9 میں سے الگ ہونے والے 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا، جس کے بعد چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کمرہ عدالت پہنچا اور کیس کی سماعت کی۔

5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال، جسٹس جمال مندو خیل، جسٹس منیب اختر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ چار ججز نے اختلافی نوٹ لکھا ہے، اور خود کو بینچ سے الگ کرلیا ہے، اور معاملہ دوبارہ چیف جسٹس کو بھیجا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 4 معزز ممبرز نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، اب عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، اور آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، پہلے بھی جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے سوشل میڈیا پر آگیا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو۔

وکیل فاروق ایچ نائیک نے عدالت میں استدعا کی کہ ہم نے فل کورٹ کے معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کی درخواست بھی سن کرنمٹائی جائے گی۔

بیرسٹر علی ظفر نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ گورنرپنجاب نے نگراں وزیراعلی کیلئے دونوں فریقین سے نام مانگے، ناموں پر اتفاق رائے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن نے وزیراعلی کا انتخاب کیا، الیکشن کمیشن نے گورنر کو خط لکھ کرپولنگ کی تاریخ دینے کا کہا، گورنر نے جواب دیا انہوں نے اسمبلی تحلیل نہیں کی توتاریخ کیسے دیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلی تحلیل کے بعد 90 دن میں انتخابات لازمی ہیں، کوئی آئینی عہدیدار بھی انتخابات میں 90 دن سے زیادہ تاخیر نہیں کرسکتا، اور 90 دن کی آئینی مدت کا وقت 14جنوری سے شروع ہوچکا ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنرپنجاب نے معاملہ الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ گورنر کو کون مقرر کرتا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ گورنر کا تقرر صدر مملکت کی منظوری سے ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل کرنے اور آئینی مدت کے بعد ازخود تحلیل ہونے میں فرق ہے۔ وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہائی کورٹ کے حکم کا احترام نہیں کیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ توہین عدالت کی آپشن کیا استعمال کی گئی۔ وکیل اظہر صدیق نے جواب دیا کہ 14 فروری کو توہین عدالت دائر کی گئی، توہین عدالت کی درخواست پر الیکشن کمیشن سے جواب مانگا گیا۔ انٹرا کورٹ اپیل بغیر تاریخ کے ملتوی کر دی گئی، اٹارنی جنرل ایڈوکیٹ جنرل نےتاریخ کیلئےکوشش کی، آج ہائیکورٹ نےکہامعاملہ سپریم کورٹ میں زیرالتواہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ نے پہلے کتنے روز میں فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیا کہ سنگل بنچ نے تو بڑی تیزی سے کیس چلایا، یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں، کیا صدر مملکت کے پہلے خط کا الیکشن کمیشن نے جواب دیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ صدرمملکت کا خط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے، ہائیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کا کہا تھا، صدرمملکت نے الیکشن کمیشن کو تاریخ دینے کا کہا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے، 8 فروری کو پہلے خط میں الیکشن کمیشن کو تاریخ کے اعلان کرنے کا کہا گیا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کےمطابق تاریخ کیلٸےمشاورت آٸین میں نہیں، ہاٸیکورٹ نے گورنر سے مشاورت کا کہہ دیا۔

جسٹس محمدعلی مظہر نے علی ظفر سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن خود تاریخ دے دے تو کیا توہین عدالت ہوگی۔ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ یہ سب تاخیری حربے ہیں، الیکشن کمیشن کا تاریخ دینا آٸینی عمل ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سوال ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ کسی نے تو انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرنا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ الیکشن 10 سال تاخیر کا شکار ہو جائے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نے تو اپنے جواب میں خود لکھا کہ گورنر سے مشاورت آئین میں نہیں، اگر مشاورت نہیں تو کمیشن پھر خود الیکشن کی تاریخ دے دیتا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ 22 جنوری کے نوٹیفکیشن کے مطابق الیکشن کمیشن نے نگراں وزیراعلی کا تقرر کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ 90 دن سے تاخیر کے حوالے سے آئین کی کوئی شق نہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ الیکشن کی تاریخ کون دیتا ہے، کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو سکتی ہے۔

وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی، گورنر نے کہا میں نے اسمبلی توڑنے کی سمری دستخط نہیں کی، اس وجہ سے الیکشن کی تاریخ نہیں دے سکتا، اور گورنر نے اپنے جواب میں الیکشن کمشنر کوتاریخ دینے کا کہہ دیا، لیکن تاریخ کی ذمہ داری نہ الیکشن کمیشن لے رہا ہے نہ گورنر۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کیس میں یہی استدعا نہیں جو آپ یہاں کر رہے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کے مطابق الیکشن کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کروانے کیلئے سب سے پہلے تاریخ کا اعلان ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں الیکشن کی تاریخ الیکشن کا حصہ ہے۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ 14، 15 فروری کو الیکشن کمیشن نمائندوں نے گورنر پنجاب سے تاریخوں کیلئے ملاقات کی، لیکن رپورٹس کے مطابق ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، عدالت گورنر یا الیکشن کمیشن کو تاریخ مقرر کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

علی ظفر نے کہا کہ ہائی کورٹ نے قرار دیا انتخابی عمل الیکشن سے پہلے شروع اور بعد میں ختم ہوتا ہے، عدالتی حکم پر الیکشن کمیشن اور گورنر کی ملاقات بے نتیجہ ختم ہوئی، صدر مملکت نے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے خود تاریخ مقرر کر دی۔

عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کردیا، اور 4 بجے سماعت دوبارہ شروع ہوئی، تو جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون جاری کرتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا۔

جسٹس جمال نے استفسارکیا کہ کیا الیکشن کمیشن اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن جاری کر سکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے مطابق 48 گھنٹے گزرنے کے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نوٹیفکیشن حکومت نے جاری کیا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن سے پہلے کسی نے تو حکم جاری کیا ہی ہوگا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر کا کردار پارلیمانی جمہوریت میں پوسٹ آفس کا ہی ہے، کیا گورنر اپنی صوابدید پر اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ گورنر کی صوابدید ہے کہ وہ کوئی سمری منظور کرے یا واپس بھیج دے، اسمبلی تحلیل پر گورنر کا کوئی صوابدیدی اختیار نہیں، گورنر اگر سمری منظور نہ کرے تو اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ گورنر کی صوابدید یہ نہیں کہ اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر سمری واپس بھیجے تو بھی 48 گھنٹے کا وقت جاری رہے گا۔

جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112تھری کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کرسکتا ہے، آرٹیکل 112 میں 2 صورتیں ہیں کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں، آرٹیکل 112 کی ذیلی شق ون میں گورنر کی صوابدید ہے کہ تحلیل کریں یا نہیں، اب بتائیں کہ کیا گورنر کے پاس صوابدید ہے یا ان کا کردار مکینیکل ہے۔

گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا، جسٹس جمال مندوخیل

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے وکیل علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ علی صاحب آپ سب کے ہی سوالات پر کہہ رہے ہیں ”جی بالکل“، کیا آپ سب کے سوالات سے اتفاق کرتے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل علی ظفر سے استفسار کیا کہ اگر گورنر سمری واپس بھیجے تو 48 گھنٹے کا وقت کہاں سے شروع ہوگا۔

وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ میری نظر میں گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری واپس نہیں بھیج سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بھی ریمارکس دیئے کہ گورنر اسمبلی تحلیل کی سمری کو واپس نہیں بھیج سکتا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ جہاں گورنر اسمبلی کی تحلیل میں کچھ نہیں کرتا وہاں تاریخ کون دے گا؟ جہاں وزیراعلی اسمبلی توڑتا ہے اورگورنرپیکچر میں نہیں آتا تو وہاں گورنر کا کیا اختیار ہوگا؟ ملک میں ایمرجنسی لگ جائے تو ان حالات میں الیکشن کے حوالے سے آٸین کیا کہتا ہے۔

انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ صرف جنگ اور سیلاب کی صورت میں ایمرجسنی لگاٸی جا سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے دوبارہ استفسار کیا کہ اگر الیکشن کے دن ملک میں جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا، انتخابات کی تاریخ گورنر دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ سمری آنے پراسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنرکی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن ازخود انتخابات کرا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 112(3) کے تحت گورنر ازخود اسمبلی تحلیل کر سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اسمبلی 48 گھنٹے بعد تحلیل ہوتی ہے تو آئین کے تحت نوٹیفکیشن کون کرتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ گورنر کے صوابدیدی اختیارات پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 112 میں دو صورتیں ہیں کہ یا گورنراسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دیتا ہے یا نہیں دیتا۔

الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے صدر مملکت بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، چیف جسٹس

عدالت نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنےحکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دےگا، گورنر تاریخ نہ دے تو الیکشن کمیشن از خود انتخابات کرا سکتا ہے؟ جس پر دونوں اسپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، اسے ہی اختیار ہونا چاہیے۔

اس موقع پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن ایکٹ میں لکھا ہے صدر مملکت بھی انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں، پارلیمان کی بصیرت کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے؟

کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہو سکتی ہے، جسٹس مظہر

سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہو سکتی ہے۔

عدالت عالیہ کا کہنا تھا کہ کیسے ہو سکتا ہےکہ پیسے نہ ہوں تو الیکشن نہ کرایا جائے، یہ عجیب نہیں، صدر مشاورت کرے اور گورنر مرضی سے تاریخ دے؟ گورنر ایک ہفتے کی تاریخ دے تو الیکشن کمیشن کیا کرے گا؟

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ انتخابات کا سارا کام تو الیکشن کمیشن نے کرنا ہے، الیکشن کے دن جنگ ہو یا زلزلہ آجائے تو کیا ہوگا؟ گورنر تاریخ دے دے تو بھی قدرتی آفات آسکتی ہیں۔

علی ظفر نے اپنے جواب میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے گورنرز کو تاریخیں تجویز کر رکھی ہیں، قانون میں جنگ کا کہیں ذکر نہیں، ایمرجنسی ہی لگائی جا سکتی ہے۔

ہمیں پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے

از خود نوٹس کی سماعت میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں پارلیمنٹ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، صدر،گورنر کس قانون کے تحت الیکشن کی تاریخ دیں گے، ابھی ہائی کورٹ سے اسٹاف مانگا تو انکار کردیا گیا، البتہ کل کیس کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

اس دوران جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ملک میں کرکٹ ہو رہی ہے، انتخابات نہیں ہوسکتے؟ جس پر جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ ابھی صرف تاریخ کی بات ہو رہی ہے، رشتہ نہیں ہوا، اس کی تاریخ بعد میں ہوگی۔ جسٹس منصور کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہے لگ گئے۔

بیرسٹر علی ظفر کے دلاٸل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس کی سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔

اختلافی نوٹ

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ الیکشن کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، ازخود کیس میں سپریم کورٹ کی رائے لاہور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

اس سے قبل چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرنی تھی۔

سپریم کورٹ نے کیس میں وفاق، الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل سمیت پی ڈی ایم کی جماعتوں کو نوٹس جاری کررکھے ہیں، جب کہ پاکستان بار، سپریم کورٹ بار، اسلام آباد بار اور ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی عدالتی کی معاونت کے لئے نوٹس جاری کئے گئے تھے۔

دوسری جانب حکمران اتحاد مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اورجے یوآئی نے 2 ججز پر اعتراض کرتے ہوئے مطالبہ کررکھا ہے کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہرنقوی بینچ سےعلیحدہ ہوجائیں۔ جب کہ پاکستان بارکونسل سمیت حکمران اتحاد نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر رکھی ہے۔

بینچ میں شامل جسٹس جمال خان مندوخیل نے از خود نوٹس لینے پر بھی اعتراض اٹھایا ہے۔

سپریم کورٹ کے9 رکنی لاجر بینچ نے فریقین کے سامنے 4 سوال رکھے ہیں۔

اسمبلی تحلیل کی صورت میں انتخاب کی تاریخ کااعلان کرناکس کی ذمہ داری ہے؟

نوے روزمیں انتخابات کی ذمہ داری کس نے اور کیسے نبھانی ہے؟

انتخابات کے حوالے سے وفاق اورصوبوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟

کیا صوبائی اسمبلیاں آئینی طریقے سے تحلیل ہوئی ہیں یا نہیں؟

پس منظر

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے16 فروری 2023 کو سی سی پی اولاہورغلام محمود ڈوگرکیس کا معاملہ ازخودنوٹس کیلئےچیف جسٹس کوبھیجا تھا۔ جس کے بعد عدالت عظمیٰ نے پنجاب اورخیبرپختونخوااسمبلیوں کی تحلیل کےباوجود الیکشن کی تاریخ نہ دیے جانے پراز خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

Supreme Court of Pakistan

Politics 27 Feb 2023

Politics 28 Feb 2023

Comments are closed on this story.

تبصرے

تبولا

Taboola ads will show in this div