بنگلہ دیش کی برطرف سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد جو کئی سالوں تک ملک میں اقتدار سنبھالے رہیں، کو پیر کے روز بنگلادیش کی خصوصی عدالت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مقدمے پر انہیں سزائے موت سنادی ہے۔
خود ان کی اپنی قائم کردہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
شیخ حسینہ کو ڈھاکا میں قائم ایک ٹربیونل نے یہ قرار دیتے ہوئے قصوروار ٹھہرایا کہ انہوں نے گزشتہ برس ہونے والے طلبہ احتجاج کے خلاف سیکیورٹی فورسز کو مہلک طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔
اس دوران ملک میں طلبہ کی ایک تحریک نے زور پکڑا تھا جو ابتدا میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظام کے خلاف شروع ہوئی تھی لیکن بعد ازاں حکومت مخالف تحریک میں بدل گئی، جس میں کئی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ فیصلہ اُن کے استعفے اور بھارت میں فرار کے 15 ماہ بعد سنایا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ برس 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔
ابتدائی سفر
شیخ حسینہ 1947 میں اُس وقت کے مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے بنگالی ادب میں ڈگری حاصل کی اور اپنے والد اور ان کے طالب علم حامیوں کے درمیان رابطہ کار کے طور پر جلد سیاسی عمل میں شامل ہو گئیں۔
روس کے 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد درآمدی ایندھن اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے نے بنگلہ دیش کی ایک زمانے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کی رفتار کو اچانک سست کر دیا۔ اس اقتصادی دباؤ کے باعث بنگلہ دیش کو گزشتہ سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 4.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی طرف رجوع کرنا پڑا۔
اگست 2023 میں جب حسینہ اپنی بہن کے ساتھ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک چھوڑ گئیں، تو مظاہرین نے پُرجوش انداز میں صدارتی محل پر دھاوا بول دیا اور قیمتی سامان باہر نکال کر لے گئے۔
اس کے بعد بنگلہ دیش کی باگ ڈور نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو دی گئی، جو طویل عرصے تک حسینہ کے سخت ناقد رہے۔
اب عوامی لیگ کو فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
ان پر مظاہروں سے طاقت کے ذریعے نمٹنے اور مظاہرین کی ہلاکت سے متعلق مقدمات بنائے گئے۔ آج 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انہیں 5 الزامات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنادی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حسینہ واجد کو ڈھاکا میں 6 مظاہرین اور اشولیا میں 6 طلبا کے قتل میں ملوث پایا گیا، ان جرائم پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔
شیخ حسینہ کے خلاف سزائے موت کا حالیہ فیصلہ نہ صرف ان کے سیاسی دور کے خاتمے کی علامت ہے بلکہ بنگلہ دیش کی مستقبل کی سیاست کے لیے بھی گہرا اثر رکھتا ہے۔
سزائے موت پر شیخ حسینہ کا شدت آمیز ردعمل
بھارت میں جلاوطنی کے دوران حسینہ نے فیصلے کو ”جانب دار اور سیاسی طور پر متعصب“ قرار دیتے ہوئے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ، ”میں اپنے خلاف الزامات کا سامنا ایک ایسے ٹربیونل میں کرنے سے نہیں گھبراتی جہاں شواہد منصفانہ طور پر پرکھے جائیں۔“
عدالت میں اُن کے سرکاری وکیل نے بھی مؤقف اپنایا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔