شیخ حسینہ: اقتدار کی بلندیوں سے سزائے موت تک

آج انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
شائع 17 نومبر 2025 06:00pm

بنگلہ دیش کی برطرف سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد جو کئی سالوں تک ملک میں اقتدار سنبھالے رہیں، کو پیر کے روز بنگلادیش کی خصوصی عدالت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مقدمے پر انہیں سزائے موت سنادی ہے۔

خود ان کی اپنی قائم کردہ خصوصی عدالت کے 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے فیصلہ دیتے ہوئے مظاہروں سے متعلقہ 2 الزامات کے تحت انہیں سزائے موت اور 3 الزامات کے تحت عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

شیخ حسینہ کو ڈھاکا میں قائم ایک ٹربیونل نے یہ قرار دیتے ہوئے قصوروار ٹھہرایا کہ انہوں نے گزشتہ برس ہونے والے طلبہ احتجاج کے خلاف سیکیورٹی فورسز کو مہلک طاقت کے استعمال کا حکم دیا تھا۔

اس دوران ملک میں طلبہ کی ایک تحریک نے زور پکڑا تھا جو ابتدا میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ نظام کے خلاف شروع ہوئی تھی لیکن بعد ازاں حکومت مخالف تحریک میں بدل گئی، جس میں کئی افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ یہ فیصلہ اُن کے استعفے اور بھارت میں فرار کے 15 ماہ بعد سنایا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ برس 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے، جو 1971 کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلہ دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔

ابتدائی سفر

شیخ حسینہ 1947 میں اُس وقت کے مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئی تھیں۔ ڈھاکا یونیورسٹی سے بنگالی ادب میں ڈگری حاصل کی اور اپنے والد اور ان کے طالب علم حامیوں کے درمیان رابطہ کار کے طور پر جلد سیاسی عمل میں شامل ہو گئیں۔

AAJ News Whatsapp

برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق شیخ حسینہ پہلی مرتبہ عالمی منظرنامے پر اُس وقت نمایاں ہوئیں جب 1975 کی فوجی بغاوت میں اُن کے والد بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن اور خاندان کے بیشتر افراد قتل کر دیے گئے تھے۔ اس وقت حسینہ واجد یورپ میں مقیم تھیں۔

ابتدائی دور میں وہ جمہوریت کے لیے تو سرگرم رہیں، مگر طویل اقتدار کے دوران اُن پر مخالفین کی گرفتاریوں، آزادی اظہار پر پابندیوں اور ریاستی جبر کے الزامات لگتے رہے۔

1975 کے بعد بھارت میں جلاوطنی کا عرصہ گزارنے کے بعد وہ 1981 میں واپس لوٹیں اور عوامی لیگ کی سربراہ منتخب ہوئیں۔ بعد میں انہوں نے اپنی بڑی سیاسی حریف خالدہ ضیا (بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ) کے ساتھ مل کر 1990 میں فوجی حکمران حسین محمد ارشاد کے خلاف جمہوری تحریک چلائی اور انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔

تاہم یہ اتحاد زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا، اور دونوں رہنماؤں کی تلخ سیاسی رقابت دہائیوں تک بنگلہ دیشی سیاست پر غالب رہی۔

شیخ حسینہ نے پہلی بار 1996 میں حکومت بنائی، پھر 2009 میں دوبارہ اقتدار میں آئیں اور 2023 تک مسلسل برسراقتدار رہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 78 سالہ حسینہ کو اُن کے دورِ حکومت میں بنگلہ دیش کی معیشت خصوصاً ملک کی گارمنٹس انڈسٹری کو مضبوط بنانے کا کریڈٹ دیا جاتا رہا۔ انہیں میانمار سے آنے والے لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو پناہ دینے پر عالمی سطح پر سراہا بھی گیا۔

تاہم احتجاجی تحریک کے سبب انہیں پانچویں بار اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔

بعد ازاں ناقدین نے الزام لگانا شروع کیا کہ شیخ حسینہ زیادہ آمرانہ طرزِ حکمرانی اپنانے لگی تھیں۔ مخالفین اور کارکنوں کی گرفتاریوں، جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے متعدد واقعات رپورٹ ہونے لگے تھے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے خبردار کیا تھا کہ ملک عملی طور پر ایک جماعتی نظام کی جانب بڑھ رہا ہے۔

معاشی دھچکے اور سیاسی تبدیلی

روس کے 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد درآمدی ایندھن اور غذائی اجناس کی قیمتوں میں اضافے نے بنگلہ دیش کی ایک زمانے میں تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت کی رفتار کو اچانک سست کر دیا۔ اس اقتصادی دباؤ کے باعث بنگلہ دیش کو گزشتہ سال بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 4.7 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی طرف رجوع کرنا پڑا۔

اگست 2023 میں جب حسینہ اپنی بہن کے ساتھ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ملک چھوڑ گئیں، تو مظاہرین نے پُرجوش انداز میں صدارتی محل پر دھاوا بول دیا اور قیمتی سامان باہر نکال کر لے گئے۔

اس کے بعد بنگلہ دیش کی باگ ڈور نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو دی گئی، جو طویل عرصے تک حسینہ کے سخت ناقد رہے۔

اب عوامی لیگ کو فروری میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

ان پر مظاہروں سے طاقت کے ذریعے نمٹنے اور مظاہرین کی ہلاکت سے متعلق مقدمات بنائے گئے۔ آج 3 رکنی انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے انہیں 5 الزامات میں سزائے موت اور عمر قید کی سزا سنادی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حسینہ واجد کو ڈھاکا میں 6 مظاہرین اور اشولیا میں 6 طلبا کے قتل میں ملوث پایا گیا، ان جرائم پر انہیں موت کی سزا سنائی گئی۔

شیخ حسینہ کے خلاف سزائے موت کا حالیہ فیصلہ نہ صرف ان کے سیاسی دور کے خاتمے کی علامت ہے بلکہ بنگلہ دیش کی مستقبل کی سیاست کے لیے بھی گہرا اثر رکھتا ہے۔

سزائے موت پر شیخ حسینہ کا شدت آمیز ردعمل

بھارت میں جلاوطنی کے دوران حسینہ نے فیصلے کو ”جانب دار اور سیاسی طور پر متعصب“ قرار دیتے ہوئے تمام الزامات کی تردید کی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ، ”میں اپنے خلاف الزامات کا سامنا ایک ایسے ٹربیونل میں کرنے سے نہیں گھبراتی جہاں شواہد منصفانہ طور پر پرکھے جائیں۔“

عدالت میں اُن کے سرکاری وکیل نے بھی مؤقف اپنایا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔

Bangladesh

Former Prime Minister

Sheikh Hasina

to death sentence

political dominance