27 ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش، اپوزیشن کا احتجاج
**ستائیسویں آئینی ترمیم سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہونے کے بعد منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کر دیا۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیر صدارت اجلاس میں وزیر قانون نے بتایا کہ یہ ترمیم سینیٹ سے دو تہائی اکثریت سے منظور ہو چکی ہے۔ تاہم، اپوزیشن کی جانب سے اجلاس کے دوران شدید احتجاج اور شور شرابہ کیا گیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک میں آئینی معاملات کے لیے آئینی عدالتیں موجود ہیں اور ججز کی تقرری جوڈیشل کمیشن کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بل میں سوموٹو کے اختیار کو ختم کر کے ایک واضح طریقہ کار وضع کیا گیا ہے، تاکہ عدلیہ میں سیاسی یا بیرونی دباؤ کم ہو اور ملک کا معاشی نظام متاثر نہ ہو۔
وزیر قانون نے بتایا کہ سابقہ نظام میں آرٹیکل 200 کے تحت صدر ہائیکورٹ ججز کو دوسرے ہائیکورٹس میں تبادلہ کر سکتے تھے، لیکن اب یہ اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے۔ اگر کوئی جج کمیشن کے حکم پر تبادلہ سے انکار کرے گا تو وہ ریٹائر تصور ہوگا۔ اس طرح آئینی کمیشن اور موجودہ چیف جسٹس آئینی عدالت اور دیگر اداروں کی سربراہی کریں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا، ”بل میں سوموٹو کا اختیار ختم کیا گیا ہے اور ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ ماضی میں سوموٹو کے ذریعے ملک کا معاشی نظام بٹھا دیا گیا، بل میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ججز کے تبادلے کا اختیار کمیشن کے پاس ہوگا، اگر کمیشن کے حکم پر جج کہیں جانے سے انکار کرتا ہے تو وہ ریٹائر تصور ہوگا۔“
وزیر قانون نے مزید کہا کہ آئینی عدالت صوبوں کے معاملات اور آئینی مقدمات دیکھے گی، جبکہ سپریم کورٹ دیوانی مقدمات سمیت کل 62 ہزار سے زائد مقدمات کی سماعت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر مملکت کے لیے استثنیٰ کی تجویز دی گئی ہے، لیکن اگر صدر دوبارہ پبلک آفس میں آئیں تو استثنیٰ ختم ہو جائے گا۔
مبارک ہو آپ نے لوٹوں کی مدد سے ترمیم پاس کرائی، بیرسٹر گوہر
اجلاس میں اپوزیشن کی جانب سے شدید تنقید بھی کی گئی۔ بیرسٹر گوہر نے کہا، ”ہم اس آئینی ترمیم کو نہیں مانتے، آج جمہوریت کے لیے سوگ کا دن ہے، آپ نے سپریم کورٹ کو ڈسٹرکٹ کورٹ بنا دیا، چیف جسٹس آف پاکستان ختم ہوگیا، اور آج کے بعد چیف جسٹس آئینی عدالت کا سربراہ ہوگا۔“
بیرسٹر گوہر نے 27 ویں آئینی ترمیم پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ترمیم آئین اور جمہوریت کے اصولوں کے منافی ہے۔ ان کے مطابق یہ اقدام عوام کی خدمت کے بجائے مخصوص مفادات کے لیے کیا گیا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا، “27 ویں ترمیم کو دراصل ایک ذاتی اور سیاسی مفاد کے لیے بنایا گیا، **”وزیراعظم نے باکو میں بیٹھ کر ترمیم کی منظوری دی۔“
انہوں نے سوال اٹھایا کہ دنیا کے کس ملک میں صدر کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، اور کہا کہ امریکی اور فرانسیسی صدور کے خلاف بھی مقدمات بنتے ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے کہا، ”قانون کے سامنے جوابدہی قانون کی بالادستی ہوتی ہے، جس دن مرد آہن نکلا یہ آئینی عدالت ختم ہوجائے گی۔“
بیرسٹر گوہر نے سپریم کورٹ کی حیثیت پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا، ”آپ نے سپریم کورٹ کو ڈسٹرکٹ کورٹ بنا دیا، چیف جسٹس آف پاکستان ختم ہوگیا، اور آج کے بعد چیف جسٹس آئینی عدالت کا سربراہ ہوگا۔“
انہوں نے مزید کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی عمر 68 سال کردی گئی ہے اور یہ ترمیم دو لوٹوں کی مدد سے پاس کروائی گئی ہے۔
انہوں نے سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے ووٹ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ”لوٹوں کی مدد سے کی گئی ترمیم عوام کی خدمت نہیں کرسکتی، یہ صرف مخصوص حلقوں کے فائدے کے لیے ہے۔“
سینیٹ اجلاس میں کیا ہوا؟
پیر کو ہوئے سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ستائیسویں آئینی ترمیمی بل پیش کی۔ ووٹنگ کے دوران 64 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، اور تمام 59 شقوں کو مرحلہ وار منظوری دی گئی۔ ترمیم کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔
حکومتی اراکین کی جانب سے ووٹنگ کے دوران اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو احتجاج میں شریک نہیں ہوئے اور اپنی نشست پر بیٹھے رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر احمد خان اور پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ترمیم کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد اراکین نے لابیز میں جا کر حتمی ووٹ دیا، جس میں مجموعی طور پر 64 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، اور کسی نے مخالفت نہیں کی۔
سینیٹ سے منظوری کے بعد اب یہ آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے ایوان میں نجی کارروائی نہ لینے کی تحریک پیش کی، جسے منظور کر لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج قومی اسمبلی میں صرف سرکاری بزنس لیا جائے گا، تاکہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر بحث اور منظوری کا عمل مکمل کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق ترمیم کی منظوری کے بعد کئی اہم آئینی شقوں میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم ملکی نظام کو مؤثر اور متوازن بنانے میں مدد دے گی، تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اسے جلد بازی میں پیش کیا گیا۔