27 ویں آئینی ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش، اپوزیشن کا شور شرابا اور نعرے بازی
قومی اسمبلی کا اجلاس سیاسی و آئینی سر گرمیوں کا مرکز بنا رہا، 27ویں آئینی ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان بحث اور اپوزیشن کی جانب سے شور شرابا اور نعرے بازی دیکھنے کو ملی۔ وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ترمیم پر وسیع مشاورت مکمل ہوچکی ہے، سینیٹ پہلے ہی دو تہائی اکثریت سے اسے منظور کرچکا ہے۔
منگل کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی صدارت میں ہوا جب کہ ستائیسویں آئینی ترمیم سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہونے کے بعد وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے 27 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے 27ویں آئینی ترمیم کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ترمیم پر وسیع مشاورت کا عمل مکمل کیا گیا ہے اور سینیٹ پہلے ہی اسے دو تہائی اکثریت سے منظور کر چکا ہے۔ دنیا بھر میں ججز کی تعیناتی کا عمل لارجر فورمز کے ذریعے کیا جاتا ہے اور اسی طرز پر پاکستان میں بھی نظام کو مزید شفاف اور مؤثر بنایا گیا ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کے قیام، ججز کے تبادلوں کے طریقہ کار اور صدرِ مملکت کو ریٹائرمنٹ کے بعد قانونی استثنیٰ دینے کی تجاویز شامل ہیں، آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار ماضی میں ایک عفریت بن چکا تھا، جس کے ذریعے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا گیا، اب عدالتوں کے اختیارات کی حد بندی سے انصاف کا عمل شفاف اور مؤثر ہو گا۔
وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کی شق شامل تھی، اور اب 27ویں ترمیم کے ذریعے اسی تصور کو عملی شکل دی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ترمیم کے بعد دو عدالتیں ہوں گی، ایک سپریم کورٹ اور دوسری آئینی عدالت، جسے وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو ماضی میں آئینی بینچز کو حاصل تھے۔ وزیر قانون کے مطابق ترمیم کے بعد عام شہریوں کے مقدمات سننے کے لیے سپریم کورٹ کے پاس مناسب وقت دستیاب ہوگا۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں سینیٹ انتخابات میں سیاسی وجوہات کی بنا پر ایک سال سے زائد تاخیر ہوئی، جسے اب آئینی تحفظ دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا، جو ملکی دفاع اور پیشہ ورانہ خدمات کا اعتراف ہے۔
وزیر قانون نے مزید کہا کہ فیلڈ مارشل کا رینک تاحیات رہتا ہے اور اب اسے آئینی تحفظ بھی حاصل ہوگا جب کہ کسی فردِ واحد کو یہ اعزاز واپس لینے کا اختیار نہیں ہوگا ۔ یہ فیصلہ صرف پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ووٹنگ کے ذریعے کیا جا سکے گا۔
ان کے مطابق آئینی ترمیم میں صدرِ مملکت کے استثنیٰ سے متعلق دفعات بھی شامل ہیں۔ آرٹیکل 248 کے تحت صدر کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات قانونی استثنیٰ حاصل ہوگا، تاہم اگر وہ دوبارہ کوئی عوامی عہدہ سنبھالتے ہیں تو یہ استثنیٰ ختم ہو جائے گا۔
اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ بل کی 59 شقوں میں سے 48 عدلیہ اور وفاقی آئینی عدالت سے متعلق ہیں، جن کا مقصد عدالتی نظام کو بہتر اور مؤثر بنانا ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ حکومت نے بلاول بھٹو سے ترمیم کی حمایت کے لیے رابطہ کیا تھا اور یہ معاملہ پارٹی کے اعلیٰ ترین فورم پر زیرِ غور آیا۔
شازیہ مری نے سابق حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپریل 2022 میں قومی اسمبلی کو غیر آئینی طور پر تحلیل کیا گیا تھا، اس عمل کا جواب دینا ہو گا۔
وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے مؤقف اپنایا کہ یہ ترمیم کسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ نظام کو درست سمت میں لانے کے لیے ہے، صوبوں کو آئینی اختیارات کی فراہمی وقت کی ضرورت ہے۔
بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ یہ ترمیم جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے، عوام کو پارلیمان سے دور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
علی محمد خان نے کہا کہ قراردادِ مقاصد آئین کی روح ہے، کسی کو بھی مذہبی یا نظریاتی بنیادوں سے انحراف کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
جے یو آئی ف کی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ ترمیم میں شامل کئی نکات عوامی مشاورت کے بغیر شامل کیے گئے، جس سے شفافیت پر سوال اٹھتا ہے۔
دانیال چوہدری نے مؤقف اپنایا کہ نئی آئینی عدالت انصاف کی فراہمی میں تاخیر کو کم کرے گی اور عدالتی تنازعات کے حل میں مددگار ثابت ہو گی۔
اس دوران ایوان میں نعرے بازی، شور شرابہ اور الزامات کا تبادلہ ہوتا رہا۔ اجلاس میں شرمیلہ فاروقی کی تحریک برائے وقفہ سوالات ختم کرنے کی منظوری بھی ایوان نے دے دی۔
سینیٹ سے منظوری کے بعد 27ویں آئینی ترمیم کے بِل پر قومی اسمبلی میں آج باقاعدہ ووٹنگ نہ ہوسکی، کل سے منظوری کا عمل شروع ہونے امکان ہے۔
اجلاس بدھ کی صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
سینیٹ اجلاس میں کیا ہوا؟
پیر کو ہوئے سینیٹ اجلاس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ستائیسویں آئینی ترمیمی بل پیش کی۔ ووٹنگ کے دوران 64 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، اور تمام 59 شقوں کو مرحلہ وار منظوری دی گئی۔ ترمیم کی مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں آیا۔
حکومتی اراکین کی جانب سے ووٹنگ کے دوران اپوزیشن نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔ اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا اور ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو احتجاج میں شریک نہیں ہوئے اور اپنی نشست پر بیٹھے رہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جے یو آئی (ف) کے سینیٹر احمد خان اور پی ٹی آئی کے سیف اللہ ابڑو نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔ ترمیم کے تمام مراحل مکمل ہونے کے بعد اراکین نے لابیز میں جا کر حتمی ووٹ دیا، جس میں مجموعی طور پر 64 ارکان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، اور کسی نے مخالفت نہیں کی۔
سینیٹ سے منظوری کے بعد اب یہ آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے ایوان میں نجی کارروائی نہ لینے کی تحریک پیش کی، جسے منظور کر لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج قومی اسمبلی میں صرف سرکاری بزنس لیا جائے گا، تاکہ ستائیسویں آئینی ترمیم پر بحث اور منظوری کا عمل مکمل کیا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق ترمیم کی منظوری کے بعد کئی اہم آئینی شقوں میں تبدیلی کی راہ ہموار ہوگی۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ ترمیم ملکی نظام کو مؤثر اور متوازن بنانے میں مدد دے گی، تاہم اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اسے جلد بازی میں پیش کیا گیا۔











اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔