افغان وفد کا مؤقف مضحکہ خیز ہے، دہشت گرد پناہ گزین نہیں ہو سکتے، خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ آصف نے افغان وفد کے اس مؤقف کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد دراصل پاکستانی پناہ گزین ہیں جو اپنے گھروں کو واپس جا رہے ہیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ایکس‘ پر خواجہ آصف نے ٹوئیٹ میں کہا کہ یہ کیسے پناہ گزین ہیں جو اپنے گھروں کو مسلح ہو کر جا رہے ہیں اور مرکزی شاہراہوں کے بجائے چوروں کی طرح پہاڑی راستوں سے پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں؟
وزیرِدفاع نے مزید کہا کہ افغان وفد کی یہ تاویل ہی ان کی بدنیتی اور نیت کے فتور کا ثبوت ہے۔
دوسری جانب برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ترکی اور قطر کی درخواست پر دونوں ممالک نے مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کیا ہے تاکہ سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ نہ بڑھے۔
رائٹرز کے مطابق ایک پاکستانی سیکیورٹی اہلکار نے بتایا ہے کہ پاکستان مذاکرات میں اپنا مرکزی مطالبہ پیش کرے گا کہ افغانستان اپنی سرزمین کو پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانے کے طور پر استعمال ہونے سے روکے اور ان کے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کے خلاف مؤثر کارروائی کرے۔
عالی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان طالبان کے وفد کے قریب ایک ذرائع نے بتایا ہے کہ، ”پاکستان اور افغانستان کے درمیان زیادہ تر مسائل کامیابی اور امن کے ساتھ حل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے چند مطالبات پر اتفاق کے لیے کچھ اضافی وقت درکار ہے کیونکہ یہ نکات قدرے مشکل ہیں۔“
پاکستان نے واضح طور پر یہ مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین پاکستان مخالف دہشت گردوں کے استعمال سے باز رکھے، لیکن افغان وفد نے نہ صرف اس مطالبے پر کوئی یقین دہانی نہیں کرائی بلکہ بات چیت کو الزام تراشی کی نذر کیا ہے۔
ایران نے پاک افغان سرحد پر کشیدگی ختم کرانے کی پیشکش کر دی
خیال رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا تھا کہ چار روزہ مذاکرات میں افغان وفد نے کسی قابلِ عمل حل پر اتفاق نہیں کیا اور اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتا رہا۔ ان کے مطابق افغان وفد نے ”الزام تراشی، تاخیری حربے اور بہانے“ استعمال کیے، جبکہ پاکستان نے دہشت گردی کے ٹھوس شواہد پیش کیے جو افغان طالبان اور میزبان ممالک نے تسلیم بھی کیے۔
عطااللہ تارڑ نے کہا کہ ”پاکستان نے ہمیشہ امن کی نیت سے بات چیت کی، مگر بدقسمتی سے افغان طالبان کی حکومت مسلسل پاکستان مخالف دہشت گردوں کی مدد کر رہی ہے۔“ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی عوام کی حفاظت کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔
کابل دہلی کے اشاروں پر چل رہا ہے، افغان حکومت کے پاس مذاکرات کا اختیار نہیں: خواجہ آصف
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے طالبان حکومت سے بارہا کہا کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت کیے گئے وعدوں کو پورا کرے، مگر ان کی طرف سے کوئی عمل نہیں کیا گیا۔ ”طالبان حکومت نہ اپنے عوام کے سامنے جواب دہ ہے اور نہ ہی امن میں دلچسپی رکھتی ہے۔ وہ جنگی معیشت پر زندہ ہے اور افغانستان کے عوام کو ایک اور تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔“
دوسری جانب وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے خبردار کیا کہ ”اگر پاکستان میں کوئی دہشت گرد حملہ یا خودکش دھماکہ ہوا تو اس کے نتائج افغانستان کو بھی بھگتنا ہوں گے۔“
ذرائع کے مطابق مذاکرات کے دوران افغان وفد نے کئی مواقع پر اپنا مؤقف تبدیل کیا، جس سے مذاکراتی عمل مزید سست ہوگیا۔ افغان حکومت کی طرف سے اب تک مذاکرات کی ناکامی پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں، سہولت کاروں اور مددگاروں کے خلاف ہر ممکن کارروائی جاری رکھیں گے۔ پاکستان کا موقف واضح ہے کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، چاہے مذاکرات ہوں یا میدانِ عمل۔