بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کو ایک عوامی تقریب میں دعویٰ کیا کہ پاکستان نے سر کریک کے قریب فوجی بنیادی ڈھانچے کی توسیع کی ہے اور اگر وہاں کسی قسم کی مہم جوئی ہوئی تو بھارت ایک ایسا ”فیصلہ کن“ ردعمل دے گا جس سے ”تاریخ اور جغرافیہ“ بدل سکتے ہیں۔ اس دورون بھارتی عسکری قیادت نے ”آپریشن سندور 2.0“ کی دھمکی بھی دی۔ بھارتی قیادت کی جانب سے بیانات نے ایک بار پھر امن و امان کے خدشات کو بڑھا دیا اور پاک فوج کو برجستہ جواب دینا پڑا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ہفتے کو میڈیا سے گفتگو میں بھارتی قیادت کے بیانات کو اشتعال انگیز اور خطرناک قرار دیا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ ایسے بیانات خطے میں بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بن سکتے ہیں اور اگر کوئی نئی مہم جوئی کی گئی تو پاکستان ”بلا جھجھک، بھرپور اور فیصلہ کن“ طور پر جواب دے گا۔
تاہم، پاک فوج کی جانب سے راج ناتھ سنگھ کے سر کریک پر اسٹرکچر کی تعمیر کے دعوے پر کوئی تنصرہ نہیں کیا گیا۔
جس کے بعد سوال اٹھایا جارہا ہے حالیہ اشتعال انگیز بیانات کا باعث بننے والا ”سر کریک“ کیا ہے اور اس پر تنازع کیوں ہے؟
سر کریک ایک پتلی سی آبی پٹی ہے جو پاکستان کے صوبہ سندھ اور بھارت کی ریاست گجرات کے درمیان واقع ہے۔ ”رَن آف کَچھ“ کہلانے والا یہ علاقہ زیادہ تر دلدلی اور نمکین پانی پر مشتمل ہے۔
یہ پٹی تقریباً 96 کلومیٹر لمبی ہے اور بحیرۂ عرب کے کنارے جا کر ختم ہوتی ہے۔
چونکہ یہ جگہ دلدلی ہے، لہٰذا یہاں پانی کا بہاؤ، مٹی کا جماؤ اور راستے بدلنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ یعنی زمین کا نقشہ وقت کے ساتھ کچھ نہ کچھ بدلتا رہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اس علاقے کی سرحدی لائن پر مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔
’اس بار بھارت اپنے طیاروں کے ملبے میں دفن ہوگا‘، بھارتی قیادت کے بیانات پر خواجہ آصف کا ردعمل
یہ معاملہ نیا نہیں، بلکہ برطانوی دورِ حکومت سے چلا آرہا ہے۔
جب انگریزوں نے برصغیر کا نقشہ بنایا تو انہوں نے سر کریک کے علاقے کو زیادہ اہمیت نہیں دی، اور اسے محض ایک دلدلی زمین سمجھا۔
لیکن بعد میں جب 1947 میں پاکستان اور بھارت الگ ہوئے تو یہ دلدلی پٹی دونوں ملکوں کے درمیان ایک باریک سرحدی تنازع بن گئی۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ برطانوی سروے کے مطابق سرحد کریک کے مشرقی کنارے سے کھینچی جانی چاہیے، اس حساب سے سر کریک پاکستان کے اندر زیادہ آتا ہے۔
دوسری جانب بھارت کہتا ہے کہ سرحد کریک کے درمیان سے گزرنی چاہیے، یعنی پانی کے بیچوں بیچ لکیر ہونی چاہیے۔
بھارت اپنے مؤقف کے لیے ایک اصول استعمال کرتا ہے جسے ”تھل ویگ لائن“ (Thalweg Line) کہا جاتا ہے۔ اس اصول کے مطابق سرحد ندی یا سمندری راستے کے درمیان سے گزرتی ہے۔
اس چھوٹے سے فرق کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سمندری حدود، ماہی گیری کے حقوق اور تیل و گیس کے وسائل جیسے بڑے اقتصادی مفادات متاثر ہوتے ہیں۔
باہر سے دیکھنے پر یہ جگہ ایک معمولی دلدلی نالہ لگتی ہے، مگر دراصل اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
یہ علاقہ ماہی گیری، ساحلی تحفظ، قدرتی گیس اور تیل کے ذخائر اور اقتصادی زون کے لیے فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔
اگر کسی ایک ملک کو سر کریک پر مکمل حق مل جائے تو اسے سمندر میں اپنی ”اقتصادی حدود“ (Exclusive Economic Zone) بڑھانے کا موقع ملتا ہے، جہاں سے اربوں روپے کے وسائل حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
اسی لیے دونوں ممالک اس جگہ کو آسانی سے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔
دنیا کے اکثر ممالک ایسے تنازعات کے لیے اقوامِ متحدہ کے قانونِ سمندر (UNCLOS) سے رہنمائی لیتے ہیں۔
لیکن پاکستان اور بھارت دونوں نے سر کریک کے معاملے کو “دو طرفہ تنازع” مانا ہے۔ یعنی یہ تناز کسی بین الاقوامی عدالت یا ثالث کے بجائے دونوں ممالک کے درمیان براہِ راست بات چیت سے حل ہوگا۔
ماضی میں کئی بار فوجی اور سفارتی سطح پر مذاکرات ہوئے، تکنیکی ٹیموں نے سرحد کی پیمائش بھی کی، مگر حتمی اتفاق نہیں ہو سکا۔
یوں یہ تنازع ہر دور میں بغیر نتیجے کے ختم ہوتا رہا، اور آج بھی موجود ہے۔