بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیراعظم خالدہ ضیا انتقال کر گئیں

خالدہ ضیا فجر کی نماز کے فوراً بعد صبح چھ بجے اس دنیا سے رخصت ہوئیں
اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2025 08:50am

بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا طویل علالت کے بعد منگل کی صبح انتقال کر گئیں۔ پارٹی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وہ فجر کی نماز کے فوراً بعد صبح چھ بجے اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ ان کی عمر 80 برس تھی۔

خالدہ ضیا کے معالجین کے مطابق وہ جگر کے شدید عارضے، گٹھیا، ذیابیطس، سینے اور دل کے مسائل سمیت کئی بیماریوں میں مبتلا تھیں۔

پارٹی نے اپنے بیان میں ان کے لیے دعائے مغفرت کی اپیل کرتے ہوئے عوام سے گزارش کی کہ وہ ان کی روح کے ایصال ثواب کے لیے دعا کریں۔

خراب صحت اور قید و بند کی صعوبتوں کے باوجود خالدہ ضیا نے گزشتہ نومبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ فروری 2026 میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لیں گی۔

یہ انتخابات گزشتہ سال شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہونے والے پہلے بڑے الیکشن ہونے ہیں، جس میں خالدہ ضیا کی جماعت بی این پی کو مضبوط امیدوار تصور کیا جا رہا تھا۔ تاہم نومبر کے آخر میں ان کی طبیعت اچانک بگڑ گئی اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں کی کوششوں کے باوجود ان کی حالت مسلسل گرتی چلی گئی۔

ان کے آخری دنوں میں ملک کے عبوری رہنما محمد یونس نے قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ خالدہ ضیا کی صحت یابی کے لیے دعا کریں۔ محمد یونس نے انہیں قوم کے لیے باعثِ تحریک قرار دیا تھا۔ بی این پی کے میڈیا سربراہ ممدود عالمگیر پاویل نے بھی ان کے انتقال کی تصدیق کی۔

خالدہ ضیا کو 2018 میں شیخ حسینہ کی حکومت کے دور میں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں قید کیا گیا تھا، جبکہ انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ وہ گزشتہ سال شیخ حسینہ کی اقتدار سے برطرفی کے بعد رہا ہوئی تھیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں انہیں خصوصی ایئر ایمبولینس کے ذریعے لندن منتقل کرنے کا منصوبہ بھی زیر غور تھا، مگر ان کی صحت اس کی اجازت نہ دے سکی۔

ان کے صاحبزادے اور بی این پی کے اہم رہنما طارق رحمان 17 برس کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد گزشتہ ہفتے وطن واپس آئے تھے، جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔

پارٹی کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ طارق رحمان فروری میں ہونے والے عام انتخابات میں جماعت کی قیادت کریں گے اور کامیابی کی صورت میں انہیں وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا جائے گا۔

خالدہ ضیا کا شمار بنگلہ دیش کی ان سیاسی شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے ملک کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔

وہ ابتدا میں ایک خاموش اور گھریلو زندگی گزارنے والی خاتون تھیں، مگر 1981 میں ان کے شوہر اور اس وقت کے صدر ضیاء الرحمان کی فوجی بغاوت کے دوران ہلاکت کے بعد سیاست میں آئیں۔ تین برس بعد انہوں نے بی این پی کی قیادت سنبھالی اور غربت اور معاشی پسماندگی کے خاتمے کو اپنا مشن قرار دیا۔

انہوں نے شیخ حسینہ کے ساتھ مل کر 1990 میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد کے خلاف جمہوری تحریک میں حصہ لیا، مگر بعد میں دونوں رہنماؤں کے درمیان شدید سیاسی رقابت پیدا ہو گئی۔ یہی رقابت انہیں بنگلہ دیش کی سیاست میں ”لڑنے والی بیگمات“ کے نام سے مشہور کرنے کا سبب بنی۔

1991 کے عام انتخابات میں خالدہ ضیا نے غیر متوقع کامیابی حاصل کر کے بنگلہ دیش کی پہلی خاتون وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے صدارتی نظام ختم کر کے پارلیمانی نظام نافذ کیا، غیر ملکی سرمایہ کاری کے دروازے کھولے اور پرائمری تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا۔ اگرچہ وہ 1996 میں اقتدار سے باہر ہوئیں، مگر 2001 میں دوبارہ بڑی کامیابی کے ساتھ اقتدار میں آئیں۔

ان کے دوسرے دور حکومت میں شدت پسندی کے فروغ اور بدعنوانی کے الزامات سامنے آئے۔ 2004 میں شیخ حسینہ پر ہونے والے دستی بم حملے، جس میں 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، اس کا الزام بھی ان کی حکومت اور اتحادیوں پر لگایا گیا، جسے بی این پی نے ہمیشہ مسترد کیا۔

2006 میں سیاسی بحران کے دوران فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ان کا دوسرا دور ختم ہو گیا۔

بعد ازاں خالدہ ضیا اور شیخ حسینہ دونوں کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا، تاہم 2008 کے انتخابات سے قبل انہیں رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد خالدہ ضیا دوبارہ اقتدار میں نہ آ سکیں۔

2018 میں انہیں اور ان کے اہل خانہ کو ایک یتیم خانے کے لیے آنے والی غیر ملکی امداد میں مبینہ خرد برد کے الزام میں سزا سنائی گئی، جسے انہوں نے سیاسی انتقام قرار دیا۔

خراب صحت کے باعث انہیں 2020 میں نظر بند کر دیا گیا اور بالآخر 2024 میں رہائی ملی۔ رواں برس کے آغاز میں سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں انہیں اور طارق رحمان کو بری کر دیا تھا۔

خالدہ ضیا کے انتقال کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کی سیاست کا ایک اہم باب بند ہو گیا ہے۔ ان کی زندگی جدوجہد، اقتدار، قید اور شدید سیاسی کشمکش سے عبارت رہی، جس نے کئی دہائیوں تک ملک کی سیاست کی سمت متعین کیے رکھی۔

Bangladesh

Khaleda Zia

Bangladesh Nationalist Party (BNP)