پی آئی اے کی فروخت؛ عارف حبیب کنسورشیم کو کیا کچھ ملے گا؟

پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال پی آئی اے کے اثاثوں سے متعلق ہے۔
اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2025 07:45pm

وفاقی حکومت کی جانب سے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے بعد یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ قومی ایئرلائن کے کون سے اثاثے بیچے گئے اور حکومت کو کتنی رقم ملے گی۔

پی آئی اے کی نیلامی کے بعد سب سے زیادہ پوچھا جانے والا سوال پاکستان اور بیرون ملک موجود پی آئی اے کے سیکڑوں ارب روپے کے اثاثوں سے متعلق ہے۔

پی آئی اے پاکستان سمیت بیرونِ ملک بھی مختلف جائیدادوں اور اہم اثاثہ جات کی مالک ہے۔ جس میں جہازوں کا بیڑہ، فائیو اسٹار ہوٹلز، تقریباً 97 انٹرنیشنل روٹس، دنیا کے بڑے ایئرپورٹس پر لینڈنگ اور ٹیک آف کے حقوق، مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری، ملک بھر میں دفاتر، جائیدادیں اور دیگر اثاثے بھی شامل ہیں۔

یہ تمام اثاثے پہلے قومی ایئرلائن کی ملکیت تھے تاہم ماضی میں پی آئی اے کی نیلامی کے لیے انتہائی کم بولیاں وصول ہونے کے بعد مئی 2024 میں حکومت نے پی آئی اے کو دو حصوں، پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ اور پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ میں تقسیم کردیا تھا۔

اسلام آباد میں منگل کے روز ہونے والی ایک تقریب میں پاکستان کے معروف سرمایہ کاروں پر مشتمل عارف حبیب کنسورشیم نے پی آئی اے کے 75 فیصد شیئرز 135 ارب روپے میں خریدے۔ اس دوڑ میں لکی سیمنٹ کنسورشیم اور ایئر بلیو کنسورشیم بھی شامل تھے۔

البتہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کا نام اور لوگو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم سرمایہ کاروں کو انتظامی اور مالی اصلاحات کی اجازت ہوگی۔

پی آئی اے کی فروخت کے بعد یہ سوال زور پکڑ گیا ہے کہ اس نیلامی میں کون کون سے اثاثے خریداروں کے حصے میں آئیں گے۔ البتہ وزیراعظم شہبازشریف کے مشیرِ نجکاری محمد علی نے بدھ کو پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ نیلامی میں پی آئی اے کی جائیدادیں شامل نہیں ہیں۔

نیلامی میں صرف پی آئی اے کے وہ اثاثے (روٹس اور جہاز) فروخت کیے گیے ہیں جو ایئرلائن چلانے کے لیے ضروری ہیں جبکہ رئیل اسٹیٹ، ہوٹلز، سرمایہ کاری اور قرضے حکومت کی زیرِ ملکیت کمپنی کے پاس رہیں گے۔

عارف حبیب گروپ کے سربراہ عارف حبیب نے آج نیوز کے پروگرام ”نیوز اِن سائٹ وِد عامر ضیا“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کے صرف وہی اثاثے منتقل ہوں گے جو بنیادی کاروبار سے متعلق ہیں۔ تاہم پی آئی اے کی زیرِ ملکیت امریکا کے شہر نیو یارک میں موجود روز ویلٹ ہوٹل اور دیگر جائیدادیں معاہدے کا حصہ نہیں ہیں۔

پی آئی اے کے اثاثوں کو سمجھنے کے لیے پہلے ادارے کی دو کمپنیوں سے متعلق جاننا ضروری ہے۔

1- پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ

پی آئی اے کی مختلف جائیدادیں اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری اس کمپنی کی ملکیت ہے۔ جس میں 1025 کمروں پر مشتمل نیویارک کا روزویلٹ ہوٹل اور پیرس کا اسکرائب ہوٹل بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ پریسیشن انجینئرنگ کمپلیکس (پی ای سی)، پی آئی اے انویسٹمنٹ لمیٹڈ اور ملک بھر میں موجود دفاتراورپلاٹس سمیت تقریباً 26 جائیدادیں بھی اسی کمپنی کی ملکیت ہیں۔

قومی ایئرلائن کے تقریباً 650 ارب روپے سے زائد کے قرضے اور واجبات بھی اسی ہولڈنگ کمپنی کے ذمے ہیں۔

2- پی آئی اے کارپوریشن لمیٹڈ

اس کمپنی میں ایئرلائن کے وہ بنیادی اثاثے شامل ہیں جو پروازیں چلانے کے لیے ضروری ہیں۔ نجکاری کمیشن کے مطابق پی آئی اے بیڑے میں اس وقت 34 جہازہیں، جس میں سے 18 آپریشنل اور 16 گراؤنڈڈ ہیں۔ یہ تمام اس کمپنی کا حصہ ہیں۔

لینڈنگ رائٹس کو پی آئی اے کا سب سے قیمتی اثاثہ مانا جاتا ہے۔ دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈوں جیسے لندن ہیتھرو، مانچسٹر، نیویارک اور دبئی ایئرپورٹ پر پی آئی اے کو جہازوں کی لینڈنگ اور ہینگرز کی سہولت دستیاب ہے۔

پی آئی اے کاپوریشن لمیٹڈ میں تمام ملکی و بین الاقوامی پروازوں کے حقوق اور لینڈنگ رائٹس بھی شامل ہیں۔

پی آئی اے کے اس وقت 6 ہزار 700 ملازمین ہیں۔ آپریشنل شعبوں سے وابستہ تمام ملازمین بھی اس کمپنی کے ماتحت ہیں۔

وفاقی حکومت نے عارف حبیب کنسورشیم کو پی آئی اے کی آپریشنل کمپنی (پی آئی اے لمیٹڈ) کے شیئرز فروخت کیے ہیں۔ یہ کمپنی اب پروازوں کی آمدن اور دیگر ہوا بازی کی خدمات سے اپنا خرچہ چلائے گی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتِ پاکستان نے پی آئی اے کی 5 جائیدادیں، تمام جہاز، ملکی و بین الاقوامی روٹس، آپریشنز کے ساتھ نجکاری کے لیے پیش کیے تھے۔ جس میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں قومی ایئرلائن کے دفاتر سمیت کل 5 جائیدادیں اب فروخت کی گئی ہیں۔ جس میں کراچی میں واقع اصفہانی ہینگر، پائلٹس اور عملے کی تربیت کا مرکز بھی شامل ہے۔

نیلامی میں صرف پی آئی اے کے وہ اثاثے (روٹس اور جہاز وغیرہ) فروخت کیے گیے ہیں جو ایئرلائن چلانے کے لیے ضروری ہیں جن میں پروازیں، کارگو، کیٹرنگ اور ایوی ایشن سروسز شامل ہے۔ جبکہ پی آئی اے کے اہم اثاثے جیسے روزویلٹ ہوٹل اور پیرس کا ہوٹل اسکرائب معاہدے میں شامل نہیں ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ، سرمایہ کاری اور قرضے حکومت کی زیرِ ملکیت ہولڈنگ کمپنی کے پاس رہیں گے۔

مشیرِ نجکاری محمد علی نے کہا ہے کہ حکومت نے بِڈرز کی جانب سے مراعات کے مطالبے پر بزنس ماڈلز کو دیکھ کر مراعات دی ہیں۔ جس میں جہازوں کی خریداری پر جی ایس ٹی کی چھوٹ دی جائے گی اور ائیر لائن پر کوئی نئی ٹیکسیشن یا لیوی نہیں لگائی جائے گی۔

ماہرین کے مطابق حکومت اب ہولڈنگ کمپنی کی زیرِ ملکیت جائیدادوں کو لیز پر دے کر یا فروخت کر کے حاصل شدہ آمدن سے ایئرلائن کے قرضے اتارنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

PIA

Roosevelt Hotel

Privatisation

Arif Habib

PIA Sale

Fauji Fertilizer

Arif Habib Consortium