لیبیا کے آرمی چیف کی فضائی حادثے میں ہلاکت اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کا حالیہ دورہ زیر بحث کیوں؟

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حال ہی میں لیبیا کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بن غازی میں لیبیا نیشنل آرمی کے نائب سربراہ صدام خلیفہ حفتر سے ملاقات کی تھی۔
اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2025 02:16pm

ترکیہ کے دارالحکومت انقرہ کے قریب بدھ کو پیش آئے ایک فضائی حادثے میں لیبیا کی فوج کے سربراہ جنرل محمد علی احمد الحداد سمیت اعلیٰ عسکری حکام مارے گئے، جس کے بعد پاکستان میں سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کہ کیا یہ وہی لیبیائی آرمی چیف ہیں جن سے چند روز قبل پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ملاقات کی تھی؟

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے حال ہی میں لیبیا کا دورہ کیا تھا جہاں انہوں نے بن غازی میں لیبیا نیشنل آرمی کے نائب سربراہ صدام خلیفہ حفتر سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات کے دوران پاکستان اور لیبیا کے درمیان دفاعی سازوسامان کے ممکنہ معاہدے کی خبریں بھی گردش کر رہی ہیں، تاہم سرکاری یا آزاد ذرائع سے ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

سوشل میڈیا پر صارفین انقرہ طیارہ حادثے کو پاکستان کے آرمی چیف کے دورہِ لیبیا سے جوڑ رہے ہیں۔

نومی شاہ نامی ایک سوشل میڈیا صارف نے اس معاملے کو غزہ میں امن فوج کی تعیناتی سے جوڑنے کی کوشش بھی کی۔

لیکن فیلڈ مارشل عاصم منیر کے درہ لیبیا پر جاری قیاس آرائیوں کا یہ معاملہ کیا ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے پہلے لیبیا میں جاری بحران کو مختصراً سمجھتے ہیں۔

لیبیا ایک تیل سے مالا مال ملک ہے، جس کا سیاسی منظر نامہ تھوڑا پیچیدہ ہے۔ ملک میں خانہ جنگی کے بعد مشرقی اور مغربی علاقوں میں دو متوازی حکومتیں قائم ہیں۔

مشرق میں بن غازی سے ’حکومت برائے قومی استحکام’ انتظام سنبھالتی ہے جس کی قیادت وزیراعظم اسامہ حماد کرتے ہیں۔ جبکہ طرابلس میں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ‘حکومت برائے قومی اتحاد‘ (جی این یو) قائم ہے جس کے وزیراعظم عبدالحمید دبیبہ ہیں۔

لیبیا کے مشرقی علاقوں میں لیبیا نیشنل آرمی (ایل این اے) بھی سرگرم ہے جس کے کمانڈر جنرل خلیفہ حفتر ہیں۔

جنرل خلیفہ حفتر کی سربراہی میں لیبیا نیشنل آرمی بن غازی کی حکومت برائے قومی استحکام کی مدد کرتی ہے کیونکہ یہ دونوں گروہ، طرابلس میں قائم وزیراعظم عبدالحمید دبیبہ کی حکومت کے خلاف ہیں۔

سوشل میڈیا پر بحث شروع ہونے کے بعد کئی صارفین نے وضاحتیں پیش کیں کہ طیارہ حادثے میں ہلاک ہونے والے جنرل الحداد طرابلس میں قائم حکومت برائے قومی اتحاد کے سربراہ تھے، اور بن غازی میں قائم لیبیا نیشنل آرمی کے کمانڈر سے فیلڈ مارشل کی ملاقات میں شامل نہیں تھے۔

ماہر معیشت احسان الحق نے اس معاملے پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے سجامی رابطے کی سائٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ ”لیبیا میں دو حکومتیں ہیں لیکن خلیفہ حفتر کو ملک کے ستر فیصد حصے پر کنٹرول کے ساتھ ایک منظم فوج بھی میسر ہے، جس کے پاس طیارے، ٹینک، میزائل اور جدید اسلحہ ہے۔ جبکہ دوسری حکومت جس کو یو این نے تسلیم کیا ہوا ہے، وہ کمزور فوج اور ملیشیاز کی حمایت پر چل رہی ہے“۔

انہوں نے مزید لکھا کہ ”تیل پر سارا کنٹرول حفتر کا ہے اس لیے دولت بھی زیادہ انہی کے پاس ہے۔ طرابلس حکومت جس کے پاس مرکزی بینک اور دارالحکومت ہے اس کے پاس منظم فوج نہیں اور ملیشیاز کے سہارے قائم ہے۔“

احسان الحق نے واضح کیا کہ ”یہ جو آرمی چیف حادثے میں شہید ہوئے یہ طرابلس حکومت کے ہی تھے۔ پاکستان نے جو (مبینہ) معاہدہ کیا وہ خلیفہ حفتر کے ساتھ کیا، جس کے خلاف امریکہ، ترکیہ اور قطر ہیں۔ جبکہ دبئی روس اور فرانس اس کے ساتھ ہیں۔“

Libya

Libya Military Chief

Libya National Army

Government of National Unity

Army Chief of Staff Mohammed al Haddad