امریکا نے تمام غیر ملکی ڈرونز کی درآمد پر پابندی عائد کردی

جن ڈرونز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں چین کی معروف کمپنیوں ڈی جے آئی اور آٹیل  کے ڈرونز بھی شامل ہیں۔
اپ ڈیٹ 24 دسمبر 2025 12:41am

امریکی فیڈرل کمیونیکیشن کمیشن (ایف سی سی) نے قومی سلامتی کے خدشات کے پیشِ نظر غیر ملکی ساختہ ڈرونز کے نئے ماڈلز اور ان کے اہم پرزہ جات کی امریکا میں درآمد پر پابندی عائد کردی۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جن ڈرونز پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں چین کی معروف کمپنیوں ڈی جے آئی اور آٹیل  کے ڈرونز بھی شامل ہیں۔ 

ایف سی سی کے مطابق غیر ملکی ساختہ ڈرونز اور ان کے اہم پرزہ جات امریکا کی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایف سی سی کی جانب سے ان کمپنیوں کو ”کورڈ لسٹ“ میں شامل کیے جانے کے بعد اب ڈی جے آئی، آٹیل اور دیگر غیر ملکی ڈرون ساز کمپنیاں امریکا میں نئے ڈرون ماڈلز یا اہم پرزہ جات فروخت کرنے کے لیے ضروری سرکاری منظوری حاصل نہیں کر سکیں گے۔

ایف سی سی کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دسمبر 2024 میں امریکی کانگریس کی جانب سے دی گئی ہدایت کے تحت اٹھایا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اگر ایک سال کے اندر سیکیورٹی جائزہ مکمل نہ ہوا تو ڈی جے آئی اور آٹیل کو فہرست میں شامل کر لیا جائے۔

خبررساں ایجنسی کے مطابق یہ اقدام چینی ساختہ ڈرونز کے خلاف امریکا کی حالیہ سخت پالیسیوں میں ایک بڑا اضافہ قرار دیا جا رہا ہے، ستمبر میں امریکی محکمہ تجارت نے بھی کہا تھا کہ وہ چینی ڈرونز کی درآمد کو محدود کرنے کے لیے ایسے قواعد متعارف کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو ایف سی سی کے اقدامات سے بھی آگے جا سکتے ہیں۔

ایف سی سی نے واضح کیا ہے کہ یہ پابندی پہلے سے منظور شدہ ڈرون ماڈلز پر لاگو نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سے پہلے خریدے گئے ڈرونز کے استعمال پر کوئی اثر پڑے گا جب کہ صارفین قانونی طور پر خریدے گئے ڈرونز بدستور استعمال کر سکیں گے۔

دوسری جانب نے دنیا کی سب سے بڑی ڈرون بنانے والی کمپنی ڈی جے آئی نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ کمپنی کو براہِ راست نشانہ نہیں بنایا گیا تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کن شواہد کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ کورڈ لسٹ میں شمولیت کے بعد امریکا میں نئے ڈرون ماڈلز متعارف کرانا عملاً ناممکن ہو جائے گا۔ ڈی جے آئی اس وقت امریکا میں استعمال ہونے والے نصف سے زائد کمرشل ڈرونز فراہم کرتی ہے۔

چین کا سخت ردعمل

ادھر چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان لِن جیان نے امریکی اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے قومی سلامتی کے تصور کی ”حد سے زیادہ تشریح“ اور چینی کمپنیوں کے خلاف ”امتیازی سلوک“ قرار دیا ہے۔ بیجنگ نے واشنگٹن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کرے اور غیر ملکی کمپنیوں کے لیے منصفانہ کاروباری ماحول فراہم کرے۔

چینی وزارت تجارت نے بھی خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا اپنے فیصلے پر قائم رہا تو چین اپنے کاروباری اداروں کے جائز مفادات کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔

ایف سی سی کے مطابق وائٹ ہاؤس کی زیر نگرانی بین الادارہ جاتی جائزے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ غیر ملکی ڈرونز اور ان کے پرزے غیر مجاز نگرانی، حساس ڈیٹا کے اخراج اور سپلائی چین کی کمزوریوں جیسے خطرات کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ مستقبل میں پینٹاگون بعض مخصوص ڈرونز یا اقسام کو محفوظ قرار دے کر ان پابندیوں سے مستثنیٰ بھی قرار دے سکتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون میں ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے تھے، جس کا مقصد چینی ڈرون کمپنیوں پر امریکی انحصار کم کرنا تھا، امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے مطابق ڈرون ٹیکنالوجی مستقبل کی قومی سلامتی میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔

ری پبلکن رکن کانگریس رک کرافورڈ نے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فضائی حدود میں چینی ساختہ ڈرونز کی موجودگی برسوں سے سیکیورٹی خدشات کو جنم دیتی رہی ہے اور قومی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ قابل قبول نہیں۔

ادھر چینی کمپنی ہیک وژن نے ایف سی سی کے فیصلے کو امریکی عدالت میں چیلنج کر دیا ہے جب کہ ستمبر میں ایک امریکی جج ڈی جے آئی کی وہ درخواست بھی مسترد کر چکا ہے جس میں کمپنی نے امریکی محکمہ دفاع کی فہرست سے اپنا نام نکلوانے کی کوشش کی تھی۔

Drones

foreign drones

us ban drones import

dji

Federal Communications Commission