جاوید اختر کے ساتھ فکری مباحثہ: انٹرنیٹ پر مفتی شمائل کے چرچے

خدا کے وجود کے موضوع پر مباحثے کے نشر ہوتے ہی صرف یوٹیوب پر اسے 37 لاکھ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔
اپ ڈیٹ 21 دسمبر 2025 10:48pm

بھارت میں ممتاز اسلامی اسکالر مفتی شمائل ندوی اور معروف فلمی نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر کے درمیان خدا کے وجود کے موضوع پر ہونے والا فکری مکالمہ اس وقت انٹرنیٹ پر ہر جگہ زیرِ بحث ہے۔ پروگرام کے نشر ہونے کے بعد صرف یوٹیوب پر اسے 37 لاکھ سے زائد بار دیکھا جا چکا ہے۔

بھارتی دارالحکومت دہلی میں ہفتے کے روز ’کیا خدا موجود ہے‘ کے موضوع پر ہونے والا فکری مباحثہ اس وقت پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں زیرِ بحث ہے۔

معروف بھارتی ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے زیرِ اہتمام ایک ہال میں منعقد ہونے والے اس مباحثے کی نظامت معرف صحافی سوربھ دویدی نے کی۔

پینلسٹ میں ایک جانب الحادی نظریات کے حوالے سے شہرت رکھنے والے بھارت کے مشہور فلمی نغمہ نگار، اسکرین رائٹر اور شاعر جاوید اختر تھے۔ جو بھارتی پارلیمنٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔

دوسری جانب بھارت کے نوجوان اور ممتاز اسلامی اسکالر مفتی شمائل احمد عبداللہ ندوی تھے جو انٹرنیٹ پر جدید فکری مسائل پر گفتگو اور الحاد کے رد کے حوالے سے بیانات کے حوالے سے معروف ہیں۔

یہ مباحثہ نشر ہوتے ہی پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر میں خوب مقبولیت حاصل کر رہا ہے اور دونوں شخصیات اور خود اس مباحثے پر ردعمل اور تبصرے دیے جارہے ہیں۔

ایک موقع پر جب جاوید اختر نے اپنے نظریات کے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا کہ صحیح اور غلط کا فیصلہ اکثریت سے طے کیا جاتا ہے۔ جس پر مفتی شمائل کے جواب پر حاضرین نے خوب داد دی۔ یہ کلپ انٹرنیٹ پر بھی وائرل ہے۔


مباحثے کے دوران دونوں پینلسٹس کے درمیان خوشگوار جملوں کا بھی تبادلہ ہوتا رہا۔ ایک موقع پرمفتی شمائل نے محدود دائرے سے باہر نکل کر سوچنے کا مشورہ دیا تو جاوید اختر کے جواب سے بھی حاضرین خوب محظوظ ہوئے۔


ایکس پر ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ طے ہونے کے باوجود جاوید اختر جذباتی دلائل کا استعمال کرتے رہے جو ظاہر کر رہا تھا کہ وہ کتنے پریشان ہیں، اور ان کے پاس کوئی منطقی جواب بھی نہیں تھا۔

ایک اور صارف نے بھی اسی قسم کے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب حقیقت سامنے رکھی گئی تو جاوید اختر منطقی استدلال کے بجائے مذاق اور جذباتی استدلال پر اتر آئے۔

کچھ صارفین یہ تبصرہ بھی کرتے نظر آئے کہ جاوید اختر نے جو سوالات اٹھائے ان کے جوابات صدیوں قبل دیے جاچکے ہیں جبکہ مباحثے کے دوران وہ بنیادی اصطلاحات سے بھی لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔


سوشل میڈیا پر جہاں صارفین مفتی شمائل کی تعریفوں کے پُل باندھتے نظر آرہے ہیں، وہیں اس مباحثے کو متوازن رکھتے ہوئے میزبانی کے فرائض انجام دینے پر سوربھ دویدی کی بھی خوب تعریف کی جارہی ہے۔


کئی معروف یوٹیوبرز نے اس مباحثے پر تفصیلی تجزیاتی ویڈیوز بھی بنائیں، جس میں انہوں نے دونوں طرف کے دلائل کا موازنہ کیا اور اسے ’2025 کا سب سے بڑا دانشورانہ (انٹیلکچوئل) ایونٹ‘ قرار دیا۔
اس مباحثے کو اس لیے بھی سراہا جارہا ہے کہ اس دوران دونوں جانب سے نہایت تحمل کے ساتھ سوالات اور جوابات دیے گئے اور اتنا سنگین موضوع ہونے کے باوجود ماحول خوشگوار رہا اور ایک دوسرے کی رائے کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا گیا۔

واضح رہے کہ یہ مباحثہ اس وقت طے پایا تھا جب جاوید اختر نے ایک انٹرویو میں مذہب اور خدا کے تصور پر کچھ سخت سوالات اٹھائے تھے۔ اس کے جواب میں مفتی شمائل ندوی نے انہیں ایک علمی اور فکری مباحثے کا چیلنج دیا تھا، جسے جاوید اختر نے شرائط طے ہونے کے بعد قبول کر لیا تھا۔

Javed Akhtar

Mufti Shamail vs Javed Akhtar

The Lallantop

Saurabh Dwivedi

Does God Exist

Does God Exist Debate

Mufti Shamail

Mufti Shamail nadvi