’ابّو مجھے بچا لو‘: آگ میں جلتی بی این پی لیڈر کی ننھی بیٹی کی آخری پکار

ماں جلتے ہوئے کمرے کے باہر بیٹھ کر صرف روتی رہی اور وہی الفاظ دہراتی رہی جو اس کی بیٹی پکار رہی تھی
شائع 21 دسمبر 2025 09:08am

رات کے سناٹے کو چیرتی آگ اور دھوئیں کی لپٹوں نے نجمہ بیگم کو نیند سے جگایا۔ گھڑی میں تقریباً دو بج رہے تھے۔ اچانک ان کے گھر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ اسی آگ کے بیچ انجمہ کو ن کی سات سالہ بیٹی عائشہ اختر پھنسی نظر آئی۔ شعلوں میں گھری ننھی عائشہ کی چیخیں فضا میں گونج رہی تھیں، وہ بار بار پکار رہی تھی، ابّو مجھے لے لو، ابّو مجھے بچا لو۔ ماں اپنی آنکھوں کے سامنے یہ منظر دیکھ رہی تھی، مگر آگ اور دھوئیں کی شدت نے اسے بے بس کر دیا۔ وہ جلتے ہوئے کمرے کے باہر بیٹھ کر صرف روتی رہی اور وہی الفاظ دہراتی رہی جو اس کی بیٹی پکار رہی تھی۔

جلے ہوئے مکان کے سامنے بیٹھی نجنہ بیگم کی ہچکیاں بندھنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ آنسو خشک ہو چکے تھے مگر درد کم نہ ہوا۔ سسکیوں کے درمیان وہ بتا رہی تھیں کہ آگ لگنے کے بعد بڑی اور منجھلی بیٹی کو ٹین کی دیوار میں بنے ایک خلا سے نکال لیا گیا، مگر سب سے چھوٹی عائشہ مسلسل چیختی رہی کہ ابّو مجھے بچا لو۔ ’ہم کچھ نہ کر سکے۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ جل گئی‘۔

کبھی وہ بے اختیار پکار اٹھتیں، ’عائشہ میری بچی، تو کہاں چلی گئی‘۔ غم کی شدت اتنی بڑھ گئی کہ وہ ہوش کھو بیٹھیں۔

یہ دل دہلا دینے والا واقعہ بنگلہ دیش میں لکشمی پور صدر اُپازیلہ کے بھابنی گنج یونین کے تحت چارمانس گاؤں کے سوتراگُپتا علاقے میں پیش آیا، جہاں بی این پی رہنما بلال حسین کا گھر رات گئے آگ کی نذر ہو گیا۔ اس وقت بلال حسین، ان کی اہلیہ نجمہ بیگم اور ان کی تین بیٹیاں گھر میں موجود تھیں۔ بلال حسین کسی طرح اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئے، مگر سب سے چھوٹی بیٹی عائشہ کو نہ بچا سکے۔

بھابنی گنج یونین کے بی این پی کے جوائنٹ آرگنائزنگ سیکریٹری اور مقامی مارکیٹ میں کھاد اور زرعی ادویات کا کاروبار کرنے والے بلال حسین نے بنگلہ دیشی سے بات کرتے ہوئے اس واقعے کو منصوبہ بند تخریب کاری قرار دیا۔

ان کے مطابق رات تقریباً دو بجے حملہ آوروں نے دروازے باہر سے بند کر کے پٹرول چھڑکا اور گھر کو آگ لگا دی۔ آگ اتنی تیزی سے پھیلی کہ سات سالہ عائشہ اس کی لپیٹ میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھی، جبکہ ان کی دو بیٹیاں، سترہ سالہ بیثی اختر اور چودہ سالہ سمرتی اختر شدید جھلس گئیں، جنہیں علاج کے لیے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف برن اینڈ پلاسٹک سرجری منتقل کیا گیا۔ خود بلال حسین بھی زخمی ہوئے اور ضلع اسپتال میں زیر علاج ہیں، جبکہ ننھی عائشہ کو دوپہر کے وقت خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ آگ نے پورا گھر جلا کر راکھ کر دیا۔

لکشمی پور صدر اسپتال میں زیر علاج بلال حسین نے بتایا کہ گھر کے دونوں دروازے بند تھے۔ مجھے خود ٹین کی دیوار توڑ کر بیوی اور دو بیٹیوں کو نکالنا پڑا۔ اس وقت میری سب سے چھوٹی بیٹی چیخ رہی تھی، مگر آگ اور دھوئیں کی شدت کے باعث مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ جب شعلے اور بھڑک گئے تو میں اندر داخل نہ ہو سکا۔

اہل خانہ اور مقامی لوگوں کے مطابق رات کے کھانے کے بعد سب سو گئے تھے۔ رات گئے حملہ آور آئے، دروازے بند کیے، پٹرول چھڑکا اور آگ لگا کر فرار ہو گئے۔ پٹرول کے باعث آگ نے پل بھر میں پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

پڑوسی عبدالقادر نے بتایا کہ اس علاقے میں ایسا سفاک واقعہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ آگ لگتے ہی لوگ دوڑ کر آئے مگر شعلے اتنے شدید تھے کہ کوئی قریب نہ جا سکا۔

ضلع بی این پی کے جوائنٹ کنوینر حبیب الرحمان نے کہا کہ حملہ آوروں نے پہلے دروازے بند کیے اور پھر پٹرول ڈال کر آگ لگائی، جو واضح طور پر ایک منصوبہ بند کارروائی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے میں ملوث تمام افراد کو فوری گرفتار کیا جائے۔

لکشمی پور صدر ماڈل تھانے کے او سی محمد وحید پرویز نے بتایا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے اور پولیس پوری سنجیدگی سے تفتیش کر رہی ہے کہ آیا یہ دانستہ کارروائی تھی یا نہیں۔ اگر یہ منصوبہ بند تھا تو اس کے ہر پہلو کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کس نے، کیسے اور کیوں یہ واردات کی۔

ابتدائی علاج کے بعد بلال حسین اپنی بیٹی کے جنازے اور تدفین میں شریک ہوئے۔ غم سے نڈھال باپ نے کہا کہ پولیس کو یہ ضرور معلوم کرنا چاہیے کہ میرے گھر کو کس نے آگ لگائی۔ کم از کم میری بیٹی کے قتل کا انصاف تو ملنا چاہیے۔

Bangladesh

Bangladesh Elections 2026

Bangladesh Protests

Laxmipur

Ayesha Akter

BNP Leader Belal Hossain

BNP leader House Burnt