1200 متاثرین، 254 مساج کرنے والی خواتین: ایپسٹین فائلز میں نیا کیا ہے؟
امریکی محکمۂ انصاف نے جمعے کو سزا یافتہ جنسی مجرم جیفری ایپسٹین سے متعلق اپنی تحقیقات میں نئی دستاویز جاری کیں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنی ہوئی ہیں، کیونکہ ان کے متعدد حامیوں اور کانگریس میں موجود ریپبلکن ارکان کی جانب سے ان فائلز کے اجرا کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم یہ ابھی واضح نہیں کہ دستاویزات کی یہ جزوی ریلیز ٹرمپ کے ناقدین کو مطمئن کر پائے گی یا نہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جمعے کو جاری کی گئی دستاویزات میں ہزاروں صفحات پر مشتمل سرکاری ریکارڈ شامل ہے۔ محکمۂ انصاف کے مطابق مزید دستاویزات آئندہ دو ہفتوں کے دوران جاری کی جائیں گی۔ ابتدائی جائزے میں سامنے آنے والے چند اہم نکات نے سیاسی بحث کو مزید تیز کر دیا ہے۔
دستاویزات کے اجرا سے قبل سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ ان میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ذکر کس حد تک موجود ہوگا۔ ٹرمپ اور ایپسٹین 1990 کی دہائی اور 2000 کی دہائی کے اوائل میں دوست تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دونوں کے تعلقات 2000 کی دہائی کے وسط میں ختم ہو گئے تھے، جو 2008 میں ایپسٹین کی پہلی سزا سے پہلے کی بات ہے۔ اسی پس منظر میں جمعے کو جاری کی گئی دستاویزات میں ٹرمپ کے حوالے سے مواد کی کمی نمایاں رہی۔
رپورٹ کے مطابق دستاویزات میں ٹرمپ کی تصاویر یا ان کا ذکر بہت کم پایا گیا۔ ایک تصویر میں ایپسٹین کو ایک ایسا چیک پکڑے دکھایا گیا ہے جس پر ٹرمپ کا نام درج ہے، جبکہ ایک اور تصویر ایپسٹین کے مین ہٹن ٹاؤن ہاؤس کے اندر کی ہے جہاں کتابوں کی الماری میں ٹرمپ کی 1997 میں شائع ہونے والی کتاب ’ٹرمپ: دی آرٹ آف دی کم بیک‘ رکھی نظر آتی ہے۔
ٹرمپ کا نام ان فلائٹ مینی فیسٹس میں بھی آیا تھا جو ایپسٹین کے نجی طیارے کے مسافروں کی فہرستوں پر مشتمل تھے، اور یہ مواد محکمۂ انصاف نے فروری میں جاری کیا تھا۔
اس کے علاوہ ٹرمپ اور ان کے خاندان کے بعض افراد کے نام ایپسٹین کی کانٹیکٹ بک میں بھی شامل تھے، جو 2021 میں گھسلین میکسویل کے مقدمے کے دوران منظرِ عام پر آئی تھی۔ میکسویل، جو ایپسٹین کی سابق ساتھی تھیں، کو بچوں کی جنسی اسمگلنگ اور دیگر جرائم میں مجرم قرار دیا گیا تھا۔
صدر ٹرمپ مسلسل اس بات کی تردید کرتے رہے ہیں کہ ان کا ایپسٹین کے جرائم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس کے برعکس، جاری کردہ دستاویزات میں سابق ڈیموکریٹک صدر بل کلنٹن کے حوالے سے خاصا مواد موجود ہے۔ دستاویزات میں بل کلنٹن کی متعدد تصاویر شامل ہیں، جن میں ایک تصویر انہیں میکسویل اور ایک نامعلوم شخص کے ساتھ سوئمنگ پول میں دکھاتی ہے۔ دیگر تصاویر میں کلنٹن کو ہاٹ ٹب میں دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ایک تصویر میں ایک نوجوان خاتون ان کی کرسی کے بازو پر بیٹھی نظر آتی ہے اور اس کا بازو کلنٹن کے کندھوں کے گرد ہے، تاہم خاتون کا چہرہ سیاہ کر کے چھپا دیا گیا ہے۔
ایک اور تصویر میں ایپسٹین کے نیویارک کے گھر میں لگی ایک پینٹنگ دکھائی گئی ہے جس میں کلنٹن کو نیلے لباس میں دکھایا گیا ہے۔

کلنٹن سے متعلق تصاویر کی ریلیز محکمۂ انصاف کی اس پالیسی سے متصادم سمجھی جا رہی ہے جس کے تحت جاری تحقیقات سے متعلق مواد شائع نہیں کیا جاتا۔
ٹرمپ نے محکمۂ انصاف کو کلنٹن کے ایپسٹین سے تعلقات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے، جس پر ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد اپنی ذات سے توجہ ہٹانا ہے۔ بل کلنٹن نے بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ انہیں ایپسٹین کے جرائم کا علم تھا، حالانکہ وہ اس کے ساتھ میل جول اور سفر کر چکے تھے۔ کلنٹن کا کہنا تھا کہ کاش وہ کبھی ایپسٹین سے نہ ملتے۔
ان کے نائب چیف آف اسٹاف اینجل یورینا نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ردعمل دیتے ہوئے تصاویر کو 20 سال سے زائد پرانی، دھندلی تصاویر” قرار دیا اور کہا کہ کلنٹن کو ایپسٹین کے جرائم کا کوئی علم نہیں تھا۔ ان کے مطابق یہ معاملہ بل کلنٹن کے بارے میں نہیں ہے۔
محکمۂ انصاف کے نائب اٹارنی جنرل ٹوڈ بلانش نے کانگریس کو لکھے گئے ایک خط میں بتایا کہ دستاویزات کے تفصیلی اور جامع جائزے کے دوران ایپسٹین کے بارہ سو سے زائد متاثرین اور ان کے رشتہ داروں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
دستاویزات میں ایپسٹین کی مساج کرنے والی خواتین کی ایک فہرست بھی شامل ہے جس میں 254 نام تھے، تاہم تمام نام سیاہ کر کے چھپا دیے گئے ہیں۔ بلانش کے مطابق جمعے کو جاری کی گئی فائلز میں ایف بی آئی کی 2006 اور 2018 کی ایپسٹین تحقیقات، اور 2019 میں اس کی موت سے متعلق تحقیقات کا مواد بھی شامل ہے۔

تاہم جاری کردہ دستاویزات میں بڑے پیمانے پر مواد سیاہ کیا گیا ہے۔ ایک 119 صفحات پر مشتمل دستاویز، جو بظاہر گرینڈ جیوری کی گواہی پر مشتمل تھی، مکمل طور پر بلیک آؤٹ تھی۔ اس کے علاوہ 100، 100 صفحات کی تین مزید دستاویزات بھی مکمل طور پر سیاہ کر دی گئی ہیں۔ اس صورتحال پر کئی ڈیموکریٹس نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ محکمۂ انصاف کانگریس کے نومبر میں منظور کیے گئے قانون، جس پر صدر ٹرمپ نے دستخط کیے تھے، کے تحت مقررہ ڈیڈ لائن تک تمام فائلز جاری کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ڈیموکریٹک سینیٹر ایڈم شف نے اٹارنی جنرل پام بونڈی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کانگریس کے سامنے پیش ہو کر وضاحت دیں کہ تمام فائلز کیوں جاری نہیں کی گئیں۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کے سینئر رہنما چک شومر نے بیان میں کہا کہ آج محکمۂ انصاف کی جانب سے جاری کی گئی یہ شدید طور پر سیاہ شدہ دستاویزات مجموعی شواہد کا محض ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔











