متنازع ڈگری کے الزامات: کون کون سی شخصیات کی چھان بین ہو چکی ہے؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے جعلی ڈگری کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس طارق جہانگیری کو نااہل قرار دیا ہے۔ ماضی میں بھی پاکستان کی کئی مشہور شخصیات جعلی ڈگری کے معاملے پر نااہل قرار پائے اور کئی شخصیات کی ڈگریوں پر اعتراضات کے معاملات عدالتوں میں زیر غور رہے ہیں۔
جعلی ڈگری کی بنیاد پر نا اہلی اور برطرفی کے معاملات پر حالیہ عرصے میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعرات کو ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو بطور جج کام کرنے سے روکتے ہوئے ان کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر اور جسٹس اعظم خان پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے وزارتِ قانون کو جسٹس طارق جہانگیری کو بطورِ جج ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم جاری کیا۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 62 اور 63 قانون سازوں کی اہلیت اور نااہلی سے متعلق ہیں، جہاں آرٹیکل 62 رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے ’صادق اور امین‘ ہونے سمیت اچھے کردار، اسلامی تعلیمات پر عمل اور دیگر شرائط کا تعین کرتا ہے، جبکہ آرٹیکل 63 ان وجوہات کو بیان کرتا ہے جن کی بنا پر کوئی رکنِ پارلیمنٹ نااہل ہو سکتا ہے۔
جعلی ڈگری کی بنیاد پر کسی بڑی شخصیت کی نا اہلی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ ماضی میں پاکستان کی کئی مشہور شخصیات جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر نہ صرف نا اہل ہوئیں بلکہ انہیں سزائیں بھی بھگتنا پڑیں۔
اس حوالے سے سب سے مشہور کیس پیپلزپارٹی رہنما نواب اسلم رئیسانی کا ہے۔ جون 2010 میں سپریم کورٹ نے جب الیکشن کمیشن کو تمام ارکانِ اسمبلی کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال کا حکم دیا تو اس وقت نواب اسلم رئیسانی بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔
صحافیوں کے سوال پر نواب اسلم رئیسانی کا بیان ’ڈگری ڈگری ہوتی ہے، چاہے اصلی ہو یا جعلی‘ خاصا زیرِ بحث رہا تھا۔ بعد ازاں بلوچستان یونیورسٹی نے ان کی بی اے کی ڈگری کو اصل قرار دیا تھا جبکہ ایم اے کی بنیاد پر انہوں نے ایم فل میں داخلہ لیا تھا۔
اسی طرح میڈیا رپورٹس کے مطابق 2014 میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی بطور چیئرپرسن وزیر اعظم یوتھ بزنس لون پروگرام تقرری کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا، تو ان کی تعلیمی اسناد پر بھی سوالات اٹھے۔
سماعت کے دوران جب عدالت نے مریم نواز کی ڈگریوں سے متعلق استفسار کیا تو ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمان نے ان کی اسناد عدالت میں پیش کیں۔ تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پی ایچ ڈی کی ڈگری اصل ہے یا اعزازی، تو وہ واضح جواب نہ دے سکے اور انہوں نے وہ اسناد واپس لے لیں۔
عدالت نے دورانِ سماعت ایم اے انگلش اور پولیٹیکل سائنس میں پی ایچ ڈی کے غیر معمولی امتزاج پر بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔ اسی معاملے پر شدید دباؤ کے بعد مریم نواز نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
موجودہ صدر مملکت آصف علی زرداری بھی متنازع ڈگری کے الزام کی زد میں آئے۔ 2008 کے صدارتی انتخاب کے موقع پر انہوں نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ ایک ادارے لندن اسکول آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے گریجویشن کی ڈگری جمع کرائی تھی۔
جس کے بعد مختلف عالمی اور پاکستانی صحافتی اداروں کی رپورٹس میں انکشاف سامنے آیا کہ اس ادارے کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ ایک مختصر سے کمرے پر مشتمل دفتر تھا جو ڈگریاں جاری کرتا تھا۔
اگرچہ 2008 اور 2010 میں یہ معاملہ بہت زیرِ بحث رہا لیکن 2008 میں سپریم کورٹ نے گریجویشن کی لازمی شرط کو ختم کر دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ قانونی تنازعہ ختم ہو گیا اور آصف زرداری کی اہلیت برقرار رہی۔
2023 میں سابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کو بھی لندن کی ایک یونیورسٹی کی جعلی قانون کی ڈگری کی بنیاد پر عدالت نے نااہل قرار دے کر عہدے سے ہٹا دیا تھا، جس کے بعد گلگت بلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت تحلیل ہو گئی تھی۔
خالد خورشید نے یکم دسمبر 2020 کو وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا اور وہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی غلام شہزاد آغا نے ان کی ڈگری کو چیلنج کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت ان کی نااہلی کا مطالبہ کیا تھا۔
جولائی 2025 میں الیکشن کمیشن نے رکنِ قومی اسمبلی جمشید دستی کو ایک بار پھر جعلی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر نااہل قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق جمشید دستی نے انتخابی کاغذات میں انٹرمیڈیٹ کی جو سند جمع کرائی تھی، وہ جعلی تھی۔ وہ ماضی میں بھی ایم اے اسلامیات کی جعلی ڈگری پر سزا پا چکے ہیں۔
مارچ 2013 میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ارکانِ پارلیمنٹ کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کی تھی۔ 30 مارچ 2013 کو ایچ ای سی نے الیکشن کمیشن کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں 54 سیاست دانوں کی ڈگریوں کو جعلی یا غیر تسلیم شدہ قرار دیا گیا تھا۔
ان سیاست دانوں میں ثمینہ خاور حیات، ناصر علی شاہ، میر بادشاہ قیصرانی، شمائلہ رانا، سیمل کامران، اخونزادہ چٹان، غلام دستگیر راجر، وسیم افضل گوندل اور اسرار اللہ زہری کے نام بھی شامل تھے۔ اس مراسلے کے نتیجے میں کئی سیاستدانوں کو نااہلی اور قید کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا۔
نادرا کے سابق ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار احمد کے خلاف جعلی ڈگری کا کیس بھی خبروں میں رہا۔ ذوالفقار احمد کی تعلیمی اسناد کی جانچ پڑتال کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ان کی پیش کردہ ڈگری مستند نہیں تھی۔ نادرا کی انتظامیہ نے ادارہ جاتی انکوائری کے بعد ان کے خلاف محکمانہ کارروائی شروع کی۔
نومبر 2024 میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے نادرا کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار احمد کی درخواست خارج کر دی جو جعلی ڈگری کی بنیاد پر ان کے خلاف شروع کی گئی محکمانہ کارروائی روکنے کے لیے دائر کی گئی تھی۔














