امریکی عدالت کا لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی ختم کرنے کا حکم
امریکا میں ایک وفاقی جج نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے لاس اینجلس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو اختیارات سے تجاوز قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر ختم کرنے اور فورس کو کیلی فورنیا کے گورنر کے کنٹرول میں واپس دینے کا حکم دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق کیلی فورنیا کی ایک وفاقی عدالت نے بدھ کے روز فیصلہ دیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے نیشنل گارڈ کی تعیناتی کے حوالے سے اپنے صدارتی اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔
سان فرانسسکو میں قائم امریکی ڈسٹرکٹ عدالت کے جج چارلس بریئر کے اس فیصلے کو صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کے لیے ایک بڑا قانونی جھٹکا قرار دیا جا رہا ہے، جس کے تحت وہ ڈیموکریٹک کنٹرول والے شہروں میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی جاری رکھے ہوئے تھے، ایک ایسا اقدام جسے اندرونی معاملات میں عسکری طاقت کے غیر معمولی استعمال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق معاملہ بالآخر امریکی سپریم کورٹ تک جا سکتا ہے۔
جج چارلس بریئر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وفاقی امیگریشن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کو ’بغاوت‘ قرار دینے کا کوئی ثبوت موجود نہیں اور اس بنیاد پر نیشنل گارڈ کو وفاقی کنٹرول میں لینا قانونی طور پر درست نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یہ مؤقف اپنا کر صدارتی اختیارات کی ’غیر معمولی توسیع‘ کی کوشش کی۔
جج نے یہ مؤقف بھی مسترد کر دیا کہ عدالتیں ایمرجنسی کے دوران صدر کے اس فیصلے کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں رکھتیں۔
فیصلہ کیلی فورنیا کے گورنر گیون نیوزم کی جانب سے دائر مقدمے کے نتیجے میں آیا، جس میں انہوں نے اگست میں ٹرمپ کی جانب سے 300 نیشنل گارڈ اہلکاروں کو 2 فروری 2026 تک وفاقی کنٹرول میں لینے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ ریاستی نیشنل گارڈ رسمی طور پر ریاست کے ماتحت ہوتے ہیں تاہم مخصوص حالات میں انہیں وفاقی سروس میں بلایا جا سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ابیگیل جیکسن نے عدالتی فیصلے کے بعد بیان میں کہا کہ ٹرمپ کو ’’پُرتشدد فسادات‘‘ کے جواب میں فوج تعینات کرنے کا قانونی اختیار حاصل ہے اور انتظامیہ کو یقین ہے کہ وہ بالآخر اس قانونی جنگ میں سرخرو ہوگی۔
دوسری جانب گورنر نیوزم نے کہا کہ وہ نیشنل گارڈ کے ریاستی کنٹرول میں واپسی کے منتظر ہیں کیوں کہ صدر ٹرمپ نے انہیں “اپنی ہی کمیونٹیز کے خلاف” استعمال کیا اور عوامی سلامتی کے اہم فرائض سے دور ہٹادیا۔
صدر ٹرمپ کا مؤقف رہا ہے کہ لاس اینجلس، شکاگو، واشنگٹن ڈی سی، میمفس اور پورٹ لینڈ میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی جرائم کی روک تھام اور وفاقی املاک کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
ان شہروں کے مقامی حکام نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ زیادہ تر احتجاج پر امن تھے اور ٹرمپ نے محدود واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ ملک کے مختلف شہروں میں تعیناتیوں کے خلاف دائر مقدمات کی سماعت کرنے والی عدالتوں نے بھی مسلسل قرار دیا ہے کہ انتظامیہ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے اور تعیناتی کے لیے کوئی قابلِ قبول ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی اس وقت شروع کی تھی، جب ان کی سخت امیگریشن پالیسیوں، جن میں امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی بے دخلی میں اضافہ بھی شامل تھا، کے خلاف ملک گیر احتجاج سامنے آیا۔ انہوں نے واشنگٹن میں مقامی پولیس کا کنٹرول بھی سنبھالا، اگرچہ سرکاری اعداد و شمار مبینہ جرائم میں اضافے کے دعوے کی تائید نہیں کرتے تھے۔
گزشتہ چند مہینوں میں قانونی رکاوٹوں کے باعث فوجی تعیناتیاں کم کی جا رہی ہیں اور کئی مقامات پر روک دی گئی ہیں۔
گزشتہ ہفتے ایک وفاقی اپیل عدالت نے واشنگٹن میں تعیناتی کے خاتمے سے متعلق حکم کو عارضی طور پر معطل کر دیا۔ ٹرمپ انتظامیہ پورٹ لینڈ میں نیشنل گارڈ تعیناتی کو غیر قانونی قرار دینے والے نومبر کے فیصلے کے خلاف بھی اپیل میں ہے جب کہ شکاگو میں فوج کی تعیناتی پر پابندی کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا ہے۔
ٹینیسی میں ایک ریاستی جج بھی میمفس میں نیشنل گارڈ کی تعیناتی کو عارضی طور پر روک چکا ہے حالانکہ ریاست کے ری پبلکن گورنر بل لی نے اس اقدام کی منظوری دی تھی۔ ریاستی حکومت اس فیصلے کو چیلنج کر رہی ہے۔
















