اقلیتی حقوق سے متعلق قومی کمیشن کیا ہے اور یہ کیسے کام کرے گا؟
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت ایکٹ 2025 ترامیم کے ساتھ منظور ہوگیا، صدر مملکت کی توثیق کے بعد بل قانون کی شکل اختیار کر جائے گا جب کہ قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت ایکٹ 2025 فوری طور پر نافذ العمل ہوگا، اس قانون کا اطلاق پورے پاکستان پر ہوگا۔
منگل کو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت ہوا،جس میں قومی کمشین برائے حقوق اقلیت ایکٹ 2025 ترامیم کے ساتھ منظور کیا گیا۔ صدر مملکت کی توثیق کے بعد بل قانون کی شکل اختیار کر جائے گا۔ قانون کے نافذ ہونے کے ساتھ ہی قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت قائم تصور ہوگا۔
قومی کمیشن برائے اقلیت حقوق بل 16 ممبران پر مشتمل ہوگا اور چاروں صوبوں سے دو، دو اقلیتی ممبران کمیشن کا حصہ ہوں گے جب کہ وزیراعظم چیئرپرسن اور کمیشن ارکان مقرر کریں گے، قانون کے تحت کمیشن کا سیکرٹری مقرر کیا جائے گا، قومی کمیشن برائے حقوقِ اقلیت فنڈ قائم کیا جائے گا، آئین کے آرٹیکل 260 میں دی گئی اقلیتوں کی تعریف کے تحت ہی اقلیتیں تصور ہوں گی اور اپنے اختیارات استعمال کرے گا اور اپنے فرائض سرانجام دے گا۔
کمیشن کے چیئرپرسن کے لیے انسانی حقوق کی وکالت کا علم و تجربہ لازم قرار دیا گیا ہے،کمیشن میں ہر صوبے سے 2 اقلیتی ارکان شامل کیے جائیں گے، متعلقہ صوبائی حکومتیں ارکان نامزد کریں گی، ہر صوبے سے ایک رکن خاتون کو ترجیح دی جائے گی، ایک رکن متعلقہ صوبے کے نمایاں اقلیتی گروہ سے ہوگا، اسلام آباد سے ایک اقلیتی رکن ہوگا جسے چیف کمشنر نامزد کرے گا، نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کا ایک رکن بھی کمیشن میں شامل ہوگا، نیشنل کمیشن برائے خواتین کا ایک رکن بھی کمیشن کا حصہ ہوگا، نیشنل کمیشن برائے حقوقِ طفل کا ایک رکن بھی شامل ہوگا۔
وزارتِ انسانی حقوق کا گریڈ 21 کا افسر بطور رُکنِ کمیشن کا حصہ ہوگا، وزارتِ قانون و انصاف کا گریڈ 21 کا افسر بطور رُکنِ کمیشن کا حصہ ہوگا، وزارتِ مذہبی امور کا گریڈ 21 کا افسر بطور رُکنِ کمیشن کا حصہ ہوگا، وزارت داخلہ کا گریڈ 21 کا افسر بطور رُکنِ کمیشن کا حصہ ہوگا۔
شکایات کی انکوائری کے لیے کمیشن کے پاس وسیع اختیارات ہیں کمیشن کو سول کورٹ والے تمام اختیارات حاصل ہوں گے،کمیشن گواہوں کو طلب کرنے سمیت کسی بھی شخص سے معلومات طلب کر سکتا ہے، انکوائری مکمل ہونے پر کمیشن حکومت کو اقدامات تجویز کرے گا، انکوائری میں اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہونے یا سرکاری ملازم کی غفلت سامنے آنے پر کمیشن متعلقہ حکومت کو کارروائی یا مقدمہ چلانے کی سفارش کرے گا۔
کمیشن متاثرہ شخص یا اس کے اہلِ خانہ کو فوری عبوری ریلیف دینے کی سفارش کرے گا، کمیشن اپنے احکامات کی عدم تعمیل پر متعلقہ شخص یا ملازم کے خلاف تادیبی کارروائی کی سفارش کر سکتا ہے، کمیشن 18 ارکان پر مشتمل کونسل قائم کرے گا۔
کونسل میں ہندو برادری سے تین اراکین، جن میں سے دو شیڈول کاسٹ سے ہوں گے، مسیحی برادری سے تین اراکین اور سکھ برادری سے ایک رکن شامل ہوگا، بہائی کمیونٹی، پارسی کمیونٹی سے ایک ایک رکن ہوگا انسانی حقوق کے شعبے سے تعلق رکھنے والے دو مسلمان اراکین ہوں گے، ہر صوبے کے انسانی حقوق یا اقلیتی امور کے محکمے سے ایک نمائندہ اور اسلام آباد سے ایک اقلیتی رکن شامل ہوگا، کونسل کے اراکین وزیرِاعظم کی جانب سے کمیشن کی سفارش پرمقرر کیے جائیں گے۔
کمیشن خصوصی رپورٹس حکومت کے ذریعے مجلسِ شوریٰ کو پیش کرے گا،کمیشن بین الاقوامی فورمز میں حصہ لینے کے ساتھ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ماہرین سے رابطہ رکھے گا،کمیشن دلت اور شیڈول کاسٹ سمیت تمام اقلیتی گروہوں کے مابین انضمام کے لیے خصوصی اقدامات کرے گا۔
اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق کسی بھی واقعے کی تحقیق اور انکوائری کرنا بھی کمیشن کے اختیار میں شامل ہے،کمیشن انسانی حقوق کے مسائل پر نگرانی کرے گا اور آزادانہ تحقیقات پر مبنی رپورٹ تیار کرے گا، کمیشن کارروائی کے لیے حکومت کو پیش کرے گا۔
وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتیں کسی بھی موزوں معاملے پرکمیشن سے رائے طلب کر سکتی ہیں، وفاقی حکومت اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے متاثرین کو مالی اور قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے کمیشن کو مناسب بحالی فنڈ فراہم کرے گی،کمیشن مکمل انتظامی اور مالی خود مختاری رکھے گا،کمیشن کو مکمل اختیار ہوگا کہ وہ نئے عہدے تخلیق کرے یا پرانے ختم کرے۔
چیئرپرسن کمیشن کا چیف ایگزیکٹو اور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوگا،کمیشن کم از کم ہر 3 ماہ بعد یا ضرورت پڑنے پر اجلاس منعقد کرے گا، کمیشن کا کوئی فیصلہ اُس وقت تک درست نہیں ہوگا جب تک موجود اراکین کی اکثریت اسے منظور نہ کرے،کسی مخصوص اقلیت سے متعلق فیصلہ کے لیے اس اقلیت کے نمائندہ اراکین کا اجلاس میں موجود ہونا ضروری ہوگا، ووٹ برابر ہونے پر اجلاس کی صدارت کرنے والے شخص کے پاس فیصلہ کن ووٹ ہوگا۔کمیشن کے تمام احکامات اور فیصلے سیکریٹری یا چیئرپرسن کے نامزد کردہ کسی مجاز افسر کے ذریعے توثیق کیے جائیں گے۔










