پاکستان سے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مسلسل انخلا پر کاروباری برادری میں تشویش

'حکومت ملکی اقتصادی خطرات کو کم کرنے کے لیے ایم این سیز کے لیے برآمدات پر مبنی حکمت عملی اپنانے پر غور کر رہی ہے'
اپ ڈیٹ 24 نومبر 2025 03:52pm

ماہرین اقتصادیات اور کاروباری حلقوں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں (ایم این سیز) کے بڑھتے ہوئے انخلا کو روکنے کے لیے فوری طور پر سرمایہ کاری اور کاروبار کی حفاظت کی پالیسی وضع کرے، جس میں معقول ٹیکس نظام اور کاروبار دوست حکمت عملی شامل ہو۔

حالیہ اطلاعات کے مطابق حکومت ملکی اقتصادی خطرات کو کم کرنے کے لیے ایم این سیز کے لیے برآمدات پر مبنی حکمت عملی اپنانے پر غور کر رہی ہے، جس کے تحت موجودہ امپورٹ ڈیوٹی پر مبنی پالیسی کو بدل کر انہیں زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔

بزنس ریکارڈر کے نمائندے سہیل سرفراز کے مطابق، ایک سینئر حکومتی سرکاری اہلکار نے بتایا کہ ”ملٹی نیشنل کمپنیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو غیر دوستانہ ٹیکس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، اس لیے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والی کمپنیوں کے لیے غیر ضروری بالواسطہ ٹیکس ختم کیے جائیں گے تاکہ انہیں یکساں مواقع فراہم کیے جا سکیں۔“

پاکستان میں موجود 200 سے زائد ایم این سیز ملکی تجارت اور صنعت میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور وفاقی ریونیو بورڈ (ایف بی آر) کی کل ٹیکس وصولی میں ایک تہائی حصہ فراہم کرتی ہیں۔ تاہم ان کی برآمدات کا کوئی اتا پتا نہیں، جبکہ ہر سال ایک اعشاریہ پانچ ارب ڈالر سے زائد منافع بیرون ملک منتقل کیا جاتا ہے۔

AAJ News Whatsapp

کاروباری تجزیہ کاروں کے مطابق ایم این سیز کے انخلا کی بنیادی وجوہات میں ”امتیازی“ ٹیکس پالیسی، زیادہ کارپوریٹ ٹیکس، منافع کی منتقلی پر پابندیاں، پیچیدہ قوانین اور غیر یقینی کاروباری ماحول شامل ہیں۔ دیگر مسائل میں روپے کی قدر میں کمی، بڑھتی ہوئی مہنگائی، غیر متوقع ٹیکس پالیسی، درآمدی قوانین میں اچانک تبدیلیاں اور پیداواری لاگت میں اضافہ شامل ہیں، جس کے نتیجے میں ملکی معیشت میں قیمتی اور مستحکم روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں۔

گذشتہ چند برسوں میں نو بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے پاکستان سے اپنے کاروبار ختم یا اپنا حصہ فروخت کر دیا۔ ان میں چار مینوفیکچرنگ کمپنیاں شامل تھیں جن میں تین فارماسیوٹیکل فرمز (فائزر، صنوفی اوینٹس اور ایلی لِلی) اور ایک روزمرہ استعمال کی مصنوعات بنانے والی کمپنی (پروکٹر اینڈ گیمبل) شامل ہیں، جبکہ دیگر سروسز فرام کرنے والی کمپنیاں ہیں۔

ماہرین نے بتایا کہ بھاری ٹیکس، ٹیکس پالیسی میں اچانک تبدیلی، رقوم کی بلاکنگ، ایڈوانس وصول کرنا اور ایف بی آر حکام کی طرف سے ہراسانی کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں پاکستان سے یو اے ای منتقل ہو گئی ہیں۔ اس کے باوجود کچھ کمپنیز جیسے کوکا کولا اور نیسلے پاکستان میں ترقی، سرمایہ کاری اور اقتصادی استحکام کے مثبت مثالیں پیش کر رہی ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے سرمایہ کاری اور فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ کے اہم ذرائع ہیں۔

حالیہ تجزیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایم این سیز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی اور دیگر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافے، اچانک ٹیکس پالیسی میں تبدیلی، اور غیر یقینی کاروباری ماحول ایک سنگین اقتصادی خطرہ ہیں۔ ماہرین نے تجویز کیا کہ ایم این سیز کے لیے مستقل اور شفاف ٹیکس پالیسی لازمی ہے تاکہ وہ پاکستان میں مستحکم اور منافع بخش طریقے سے کام کر سکیں۔

ماہرین نے زور دیا کہ اگر ایم این سیز کے لیے برآمدات پر مبنی حکمت عملی اپنائی جائے اور انہیں یکساں مواقع فراہم کیے جائیں تو نہ صرف ملکی برآمدات میں اضافہ ہو گا بلکہ ایف بی آر کی ٹیکس وصولی میں بھی نمایاں اضافہ ممکن ہے۔

federal excise duty

FOREIGN DIRECT INVESTMENT

Multinational companies Pakistan

MNC exit Pakistan

FBR tax policy

Investment protection Pakistan

Export oriented strategy

Nestle Pakistan

Coca Cola Pakistan

Pakistan economic threat

Corporate taxation Pakistan

Foreign investment policy

Pharma MNCs Pakistan