پاکستان کا بھارتی وزیر دفاع کے ’سندھ‘ سے متعلق بیان پر سخت ردعمل
پاکستان نے بھارتی وزیرِ دفاع راجناتھ سنگھ کے سندھ سے متعلق اشتعال انگیز اور حقیقت سے دور بیانات کی سخت مذمت کی ہے۔ پاکستان نے کہا کہ بھارتی وزیر دفاع کے دعوے ایک ”وسعت پسند ہندوتوا ذہنیت“ کی عکاسی کرتے ہیں جو عالمی قوانین، تسلیم شدہ سرحدوں اور ریاستی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے 23 نومبر 2025 کو ایک کمیونٹی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”سندھ آج جغرافیائی طور پر بھارت کا حصہ نہیں، مگر تہذیبی طور پر ہمیشہ بھارت کا حصہ رہے گا… اور جہاں تک زمین کی بات ہے، سرحدیں بدلتی رہتی ہیں، کون جانے کل سندھ دوبارہ بھارت کا حصہ بن جائے۔“
انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی بھی اپنی تحریروں میں لکھ چکے ہیں کہ ان کے دور میں سندھ کے ہندوؤں نے کبھی سندھ کی علیحدگی کو دل سے قبول نہیں کیا۔
راجناتھ سنگھ نے دعویٰ کیا کہ ”سندھ کے بہت سے مسلمانوں کے نزدیک دریائے سندھ کا پانی آبِ زمزم کی طرح مقدس سمجھا جاتا تھا۔“
انہوں نے سپریم کورٹ کے 2005 کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا جس میں قومی ترانے میں لفظ ”سندھ“ برقرار رکھنے کی توثیق کی گئی تھی۔
سنگھ نے تقسیم ہند کے وقت کانگریس کی قیادت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سندھ کے ہندوؤں کے سکیورٹی خدشات کو نظر انداز کیا گیا۔ انہوں نے سندھ کے ہندوؤں کو ”وادیٔ سندھ کی تہذیب کے وارث“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس برادری کا ”دوسرے درجے کے شہری“ بن کر رہنا قابل قبول نہیں۔
انہوں نے اپنی تقریر میں آر ایس ایس کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم نے تقسیم کے بعد سندھ کے ہندوؤں کی مدد کی اور انہیں خود حفاظتی تربیت فراہم کی۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھارتی وزیر دفاع کے ان بیانات کو ”خطے کے امن و استحکام کے لیے خطرہ“ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی کو ایسے اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا چاہیے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ”ہم راجناتھ سنگھ اور دیگر بھارتی حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے بیانات سے باز رہیں جو خطے میں کشیدگی بڑھا سکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ بھارت پہلے اپنے ملک میں آباد کمزور اور پسے ہوئے اقلیتی طبقات کی حفاظت کو یقینی بنائے اور ان کے خلاف تشدد پر اکسانے والوں کا احتساب کرے۔“
دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ بھارت کو چاہیے وہ شمال مشرقی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے دیرینہ مسائل حل کرے، جہاں ”نسلی اور شناختی بنیادوں پر مسلسل ریاستی سرپرستی میں امتیاز اور تشدد“ جاری ہے۔
ترجمان نے واضح کیا کہ پاکستان جموں و کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔
بیان کے آخر میں کہا گیا کہ پاکستان اپنے قومی مفاد، خود مختاری اور سکیورٹی کے تحفظ کے لیے ہر قدم اٹھانے کے لیے پُرعزم ہے۔














