ٹک ٹاک کا نیا ’فِلپ دی کیمرا‘ چیلنج آن لائن ہراسانی کا زریعہ بن گیا

ٹک ٹاک کا 'فلپ دی کیمرا' چیلنج: تفریح یا آن لائن بدمعاشی؟
شائع 16 نومبر 2025 12:46pm

سوشل میڈیا کی دنیا میں ہر لمحہ نیا رجحان جنم لیتا ہے، لیکن بعض اوقات یہ رجحانات ہماری نوجوان نسل کے لیے غیر محسوس خطرہ بن جاتے ہیں۔ حال ہی میں ٹک ٹاک پر مقبول ہونے والا ”فلپ دی کیمرا“ چیلنج ایک ایسا ہی مظہر ہے جو آن لائن تفریح اور حقیقی دنیا کے جذبات کے درمیان خلیج کو بے نقاب کرتا ہے۔

نیویارک پوسٹ نے بھی اس بات کو رپورٹ کیا ہے کہ یہ نیا اور تشویشناک رجحان والدین اور ماہرین کے لیے فکر کا باعث بن گیا ہے۔ نوجوانوں پر الزام ہے کہ وہ دوسروں کی شرمندگی کو آن لائن مواد بنانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ جو بات آن لائن مزاحیہ لگ سکتی ہے، وہ متاظرہ شخص کی زندگی میں حقیقی نقصان کا سبب بن رہی ہے۔

اس چیلنج میں کچھ نوجوان خوشگوار رقص یا کھیل کے بہانے کسی بھی شخص کو اچانک اپنا موبائل پکڑنے کے لیے دیتے ہیں۔ جیسے ہی وہ شخص موبائل پکڑتا ہے، نوجوان کیمرہ پلٹ کر اس کی حیرت یا الجھن کو ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ پھر یہ ویڈیو آن لائن شیئر کی جاتی ہے، جہاں لوگ اسے مزاح یا تفریح کے طور پر دیکھ کر لائک اور کمنٹس کرتے ہیں۔ تاہم جس شخص کو ریکارڈ کیا گیا ہوتا ہے، اس کے لیے یہ لمحہ کبھی کبھار ناقابلِ فراموش شرمندگی بن جاتا ہے۔

ماہرین اور سوشل میڈیا کریئیٹرز نے اس رجحان کی کھل کر مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ رجحان بذات خود ایک قسم کی آن لائن بدمعاشی ہے، جس کا ہدف عموماً خاموش، شرمیلے یا مددگار نوجوان ہوتے ہیں اور ایک معصوم حرکت کو دنیا کے سامنے شرمندگی میں بدل دیتے ہیں۔

امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی، یوٹیوب اور انسٹاگرام نے اپنے ملازمین کو الرٹ کردیا

ایک ٹک ٹاک صارف کیتھ ٹاکس نے اسے ’سب سے ذلیل کرنے والا رجحان‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ صرف ’بچوں کی تفریح‘ نہیں بلکہ بدمعاشی کو قانونی جواز دے کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا طریقہ ہے۔ کچھ والدین اور ماہرین اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ سوشل میڈیا صارفین ایسی ویڈیوز کو ترجیح دیتے ہیں جو فوری ردعمل پیدا کریں، اور اس وجہ سے کسی بھی عام شخص کی شرمندگی ان کے لئے تفریح کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

جنت گریما، ”بلی زیرو آسٹریلیا“ کی سی ای او، اس رجحان کو دل دہلا دینے والا قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق آن لائن بدمعاشی کا مزاج بدل چکا ہے، اب نقصان دہ حرکات کو ”چیلنج“ یا ”ٹریند“ کہا جاتا ہے، اور نوجوان اکثر سمجھ نہیں پاتے کہ ان کا عمل کسی کی زندگی پر کس قدر اثر ڈال سکتا ہے۔ گریما والدین سے اپیل کرتی ہیں کہ بچوں کو جلد از جلد تربیت دی جائے، انہیں سکھایا جائے کہ آن لائن بھی رضامندی اتنی ہی اہم ہے جتنی حقیقی زندگی میں۔

وہ مزید بتاتی ہیں کہ سوشل میڈیا کا الگورتھم کمنٹس اور لائک کرنے والے مواد کو فروغ دیتا ہے۔ اس مواد پر اپنا ردِ عمل دینا نہایت غیر مناسب عمل ہے۔ دراصل دنیا کے سامنے کسی کی شرمندگی کو تفریح کا حصہ سمجھا جانے لگا ہے۔

AAJ News Whatsapp

گریما والدین سے اپیل کرتی ہیں کہ بچوں کو جلد از جلد تربیت دی جائے، انہیں سکھایا جائے کہ آن لائن بھی رضامندی اتنی ہی اہم ہے جتنی حقیقی زندگی میں۔ بچوں سے ہمدردی کی بات کریں، انہیں ”نہیں“ کہنے کا حق دیں، اور ساتھ ہی صارفین کے لیے بھی یہ اہم ہے کہ وہ ایسے مواد میں شامل نہ ہوں اسے نہ لائک کریں، نہ تبصرہ کریں، نہ شیئر کریں تاکہ الگورتھم اس کو تیز نہ کرے۔

ٹک ٹاک صارفین ہوشیار، اہم پابندی لگانے کا فیصلہ

دراصل ٹیکنالوجی اور انسانیت کے درمیان توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ ہر ویڈیو اور ہر ”مزاح“ کے پیچھے حقیقی انسان اور حقیقی جذبات ہوتے ہیں۔ شاید وقت آگیا ہے کہ ہم آن لائن تفریح کے معیار کو صرف وائرل ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانی وقار کے تناظر میں بھی پرکھیں۔ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت، والدین کی رہنمائی اور معاشرتی شعور ہی ایسے چیلنجز کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں اور آن لائن دنیا کو تھوڑی سی نرمی اور ہمدردی کا مقام دے سکتے ہیں۔

TikTok

online bullying

Viral Videos

TikTokTrend

Parental Guidance

Digital Ethics

Youth Safety

Cyberbullying

Social Media Impact

Flip the Camera Challenge