کیا شہباز شریف نے وزیر اعظم کو استثنیٰ کی شق عمران خان کی وجہ سے واپس لی؟
سوشل میڈیا پر پھیلنے والی افواہوں کے برعکس، وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے واضح طور پر کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے آئینی ترمیم میں وزیراعظم کے لیے مجوزہ استثنیٰ کی شق عمران خان کے خوف سے نہیں بلکہ جمہوری اصولوں کی بنیاد پر واپس لی ہے۔
یہ معاملہ اس وقت زیرِ بحث آیا جب 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے میں وزیراعظم کو صدر کی طرح استثنیٰ دینے کی تجویز شامل کی گئی۔ بعد ازاں وزیراعظم شہباز شریف نے خود یہ شق واپس لینے کی ہدایت دی اور کہا کہ وزیراعظم کو “مکمل طور پر جواب دہ رہنا چاہیے”۔
اس کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف بیانات گردش کرنے لگے کہ وزیراعظم نے یہ قدم اس لیے اٹھایا تاکہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کو کسی ممکنہ قانونی فائدے سے بچایا جا سکے۔
عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ “یہ ترمیم واضح کرتی ہے ان کو عمران خان کا خوف ہے کہ وہ باہر آئے گا تو پکڑ ہو گی”۔
اسی طرح سابق سول سرونٹ اور میڈیا اسٹریٹجسٹ سلیمان شاہ راشدی نے کہا کہ “سوشل میڈیا پر موجود کچھ لوگ اور یوٹیوبرز یہ بیانیہ بنا رہے ہیں کہ ستائیسویں آئینی ترمیم عمران خان کے خوف سے لائی جا رہی ہے”۔
حکومتی سینیٹرز انوشہ رحمٰن اور خلیل طاہر سندھو نے 27ویں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش کیا تھا، جس میں صدر کو آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت حاصل استثنیٰ کو وزیراعظم تک بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی۔
یہ شق اس مقصد کے لیے تھی کہ صدارتی استثنیٰ کو وزیراعظم تک توسیع دے دی جائے، تاکہ عہدے پر فائز رہتے ہوئے وزیراعظم کے خلاف کسی قسم کی فوجداری کارروائی نہ کی جا سکے۔
سینیٹ سے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اب آگے کیا ہوگا؟
آئین کا آرٹیکل 248 یہ بیان کرتا ہے کہ صدر یا گورنر کے خلاف اُن کے عہدے کی مدت کے دوران کسی عدالت میں کسی بھی قسم کی فوجداری کارروائی شروع یا جاری نہیں کی جا سکتی۔
تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کو اس شق کو واپس لینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم کو ”مکمل طور پر جواب دہ“ رہنا چاہیے۔
اس کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کے کچھ حامیوں کی جانب سے یہ بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم میں وزیرِاعظم کا استثنیٰ شامل نہ کرنے کی وجہ عمران خان کو مقدمات میں ریلیف نہ دینا ہے۔
تاہم، سینئر صحافی عمار مسعود نے ’ورلڈ ایکو نیوز‘ کے پروگرام میں گفتگو کے دوران اس دعوے کو رد کرتے ہوئے کہا کہ “کچھ لوگ بات کررہے تھے کہ شاید وزیراعظم نے اس لیے استثنیٰ واپس کیا کہ اس سے عمران خان کو معافی نہ مل جائے، یہ بات درست نہیں کیونکہ یہ ترمیم تو آج کی تاریخ سے لاگو ہونی تھی”۔
قبل ازیں، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی اس کی تصدیق کی تھی کہ وزیراعظم شہباز شریف نے انہیں واضح طور پر کہا تھا کہ “اُنہیں استثنیٰ حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں، کیونکہ وزیراعظم کا عہدہ ایک انتظامی نوعیت کا ہے۔”
جب نجی ٹی وی چینل پر رانا ثناء اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ شق اس لیے واپس لی گئی کہ اس سے پی ٹی آئی کے بانی کو فائدہ پہنچ سکتا تھا؟ تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا، “نہیں، اگر ہمارا ایسا کوئی ارادہ ہوتا تو ہم اسے اس انداز میں بھی کر سکتے تھے کہ فائدہ صرف آج سے لاگو ہوتا۔”
رانا ثنااللہ نے کہا کہ وزیراعظم نے ایک نہایت جمہوری فیصلہ کیا ہے، اور انہیں اس پر خراجِ تحسین پیش کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کا عہدہ کوئی آئینی نہیں بلکہ انتظامی اور منتخب عہدہ ہے، “لہٰذا اسے عوام کے سامنے جواب دہ رہنا چاہیے۔”












