صدر پیوٹن کا ممکنہ روسی ایٹمی تجربے کے لیے تجاویز تیار کرنے کا حکم
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلیٰ حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ ممکنہ جوہری تجربات کے حوالے سے جامع تجاویز مرتب کریں، جو سوویت یونین کے 1991ء میں خاتمے کے بعد روس کی جانب سے پہلا جوہری تجربہ ہو سکتا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے ’رائٹرز’ کے مطابق یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ اعلان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ تین دہائیوں بعد دوبارہ جوہری تجربات شروع کرے گا۔ ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت دنیا کی دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں (روس اور امریکا) کے درمیان کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافے کا اشارہ ہے۔
اس حوالے سے روسی صدر نے کہا کہ میں وزارتِ خارجہ، وزارتِ دفاع، خفیہ ایجنسیوں اور متعلقہ سول اداروں کو ہدایت دیتا ہوں کہ اس معاملے پر اضافی معلومات اکٹھا کریں، قومی سلامتی کونسل میں اس کا تجزیہ کریں اور ایٹمی ہتھیاروں کے تجربات کی تیاری کے ممکنہ آغاز پر متفقہ تجاویز پیش کریں۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں روس اور امریکا کے تعلقات تیزی سے بگڑ گئے۔ یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لیے پیش رفت نہ ہونے پر مایوس صدر ٹرمپ نے یوکرین جنگ کے حل میں پیش رفت نہ ہونے پر صدر ٹرمپ نے پوٹن سے طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی تھی اور روس پر نئی پابندیاں بھی لگا دی تھیں۔ اس صورت حال نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید تناؤ سے دوچار کر دیا ہے۔
یہ اعلان روسی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں اُس وقت کیا گیا جب روسی پارلیمان کے اسپیکر ویچسلاو وولوڈن نے ایجنڈے سے ہٹ کر پوچھا کہ ماسکو امریکی ایٹمی تجربات کے منصوبے پر کیا ردِعمل دے گا (33 سال بعد پہلا امریکی تجربہ ہوگا)، یہ سوال بظاہر فوری معلوم ہوا، مگر اس نے کئی پہلے سے تیار بیانات کو جنم دیا۔
روسی وزیرِ دفاع آندرے بیلوسوف نے پیوٹن کو بتایا کہ امریکی اقدامات اور بیانات کے پیشِ نظر فوری طور پر مکمل پیمانے پر ایٹمی تجربات کی تیاری مناسب ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ روس کی آرکٹک ٹیسٹنگ سائٹ نووایا زِملیا ایسے تجربات قلیل مدت میں کرانے کے لیے تیار ہے۔
سربراہ جنرل اسٹاف ویلے ری گیراسیموف نے ولادیمیر پیوٹن کو خبردار کیا کہ اگر ہم نے ابھی مناسب اقدامات نہ کیے تو امریکا کی کارروائیوں کے بروقت جواب کے مواقع ضائع ہو جائیں گے، کیوں کہ ایٹمی تجربات کی تیاری میں ان کی نوعیت کے لحاظ سے کئی ماہ سے کئی سال لگ سکتے ہیں۔
شمالی کوریا کے 2017 کے تجربے کے بعد کسی ملک نے جوہری دھماکا نہیں کیا۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر روس یا امریکا نے دھماکے شروع کیے تو دیگر جوہری ریاستیں بھی اس دوڑ میں شامل ہو سکتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے اسلحہ بندی تحقیق کے سینئر محقق آندرے بکلِتسکی نے ایکس پر لکھا کہ یہ عمل اور ردِعمل کا کلاسیکی منظر ہے، کوئی بھی ایسا نہیں چاہتا مگر پھر بھی ہم اس کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔
فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹس کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے روس اور امریکا سب سے بڑی طاقتیں ہیں، جن کے بعد چین، فرانس، برطانیہ، بھارت، پاکستان، اسرائیل اور شمالی کوریا کا نمبر آتا ہے۔
روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ولادیمیر پیوٹن نے حکام کو تجاویز کی تیاری کے لیے کوئی مخصوص مدت نہیں دی۔ ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ فیصلہ امریکی عزائم واضح ہونے کے بعد ہی لیا جائے گا۔
ادھر واشنگٹن کی جانب سے بھی ابھی یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ٹرمپ کا حکم جوہری دھماکوں سے متعلق ہے یا صرف میزائلوں کی ٹیسٹنگ سے۔ روسی فوج حال ہی میں جوہری صلاحیت کے حامل بریویس تنک کروز میزائل اور پوسیڈن سپر ٹارپیڈو کا تجربہ کر چکی ہے۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگر دھماکا خیز جوہری تجربات دوبارہ شروع ہوئے تو ماحولیات پر اُس نوعیت کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جو سرد جنگ کے دور میں دیکھے گئے تھے۔


















