گاڑی میں موجود جوڑے کی نجی تصویر وائرل، ای چالان سے شہریوں میں پرائیویسی خدشات
کراچی کا نیا ای چالان سسٹم، جو ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے متعارف کرایا گیا تھا، اب شہریوں کے لیے دردِ سر بنتا جا رہا ہے۔ ایک جانب یہ نظام شہریوں کی جیبوں سے ہزاروں روپے نکال رہا ہے تو دوسری جانب اس نے نجی زندگی کی رازداری پر بھی سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
سوشل میڈیا پر گزشتہ چند دنوں سے ایک تصویر وائرل ہو رہی ہے، جس میں ایک جوڑا اپنی گاڑی میں ایک دوسرے کے قریب بیٹھا نظر آ رہا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ تصویر ای چالان سسٹم کے کیمرے نے لی ہے۔

یہ دعویٰ سامنے آتے ہی شہریوں نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیا اور میمز کے ساتھ ساتھ اس نظام کی نگرانی پر تنقید شروع کر دی۔
یہ معاملہ آج نیوز کے پروگرام ”دس“ میں بھی زیر بحث آیا۔ پروگرام کے میزبان عمران سلطان نے ماہر قانون ایڈووکیٹ فہد بلوچ سے سوال کیا کہ اگر کسی خاتون یا مرد کی گاڑی میں بیٹھے ہونے کی ایسی تصویر سوشل میڈیا پر آجائے تو ذمہ داری کس کی ہوگی؟
ایڈووکیٹ فہد بلوچ نے واضح طور پر کہا کہ اگر یہ تصویر کسی سرکاری ادارے کی جانب سے لیک ہوئی ہے تو اس ادارے کے سربراہ براہِ راست ذمہ دار ہیں۔ فہد بلوچ کے مطابق ایسا اقدام ”پیکا ایکٹ“ کے تحت جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ تصویر مصنوعی ذہانت (AI) سے تیار کی گئی ہے، تو ادارے کو فوری وضاحت دینی چاہیے کہ یہ ان کی جانب سے جاری نہیں کی گئی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ادارے کے سربراہ کو واضح پالیسی دینی چاہیے کہ ان کی طرف سے جاری ہونے والی کوئی بھی تصویر صرف سرکاری یا آفیشل پیجز پر شیئر کی جائے گی تاکہ عوام کو غلط فہمی نہ ہو۔
جب یہ معاملہ سندھ حکومت کی ترجمان تحسین عابدی کے سامنے رکھا گیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ وائرل ہونے والی تصویر ادارے کی جانب سے جاری نہیں کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت اس تصویر کا فرانزک تجزیہ کرائے گی تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ یہ تصویر حقیقی ہے یا مصنوعی۔
واضح رہے کہ صرف چوبیس گھنٹوں کے دوران شہر میں مزید 3 ہزار 283 ڈرائیوروں کو مختلف خلاف ورزیوں پر جرمانے کیے جا چکے ہیں۔
ٹریفک پولیس کے مطابق 27 اکتوبر سے لے کر یکم نومبر کی رات بارہ بجے تک مجموعی طور پر 26 ہزار 152 ای چالان جاری کیے جا چکے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ چالان سیٹ بیلٹ نہ باندھنے پر کیے گئے، جن کی تعداد 1 ہزار 992 رہی۔
اسی طرح ہیلمٹ نہ پہننے پر 761 موٹرسائیکل سواروں کو ای چالان کیا گیا، جبکہ سگنل توڑنے کی خلاف ورزی پر 119 ڈرائیوروں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑا۔
شہریوں کی شکایات کے باوجود ٹریفک پولیس کی کارروائیاں تیز تر ہو گئی ہیں، مگر ای چالان ایپ کے مسائل بدستور موجود ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ ایپ ڈاؤن لوڈ کرنا مشکل ہے، اور کئی لوگوں کے نام پر فروخت شدہ گاڑیوں کے چالان بھی آ رہے ہیں۔
اسی مسئلے پر ایک شہری نے کلفٹن تھانے میں درخواست جمع کرائی ہے کہ اس نے دس موٹرسائیکلیں فروخت کی تھیں، مگر خریداروں نے تاحال ان کے نام پر منتقلی نہیں کرائی، جس کے باعث تمام چالان اب بھی اسی کے نام پر آ رہے ہیں۔
ای چالان نظام پر شہریوں کے بڑھتے ہوئے غصے کے بعد جماعت اسلامی نے بھی بھاری جرمانوں کے خلاف احتجاج کیا ہے، جبکہ دوسری جانب آئی جی سندھ نے صوبے بھر میں بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ای چالان نظام نے جہاں شہریوں کو ٹریفک قوانین کی پابندی پر مجبور کیا ہے، وہیں ان کی نجی زندگی اور اعتماد کو بھی ایک نئی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔
Aaj English














