جرمنی کو غزہ میں نسل کشی نظر نہیں آتی؟ ترک صدر جرمن چانسلر پر برس پڑے
اسرائیل کی حمایت کرنے پر ترک صدر رجب طیب اردوان مشترکہ نیوز کانفرنس کے دوران جرمن چانسلر پر برس پڑے،کہا اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے مگر جرمنی اسے دیکھنے سے انکار کر رہا ہے۔
صدر طیب اردوان کی مشترکہ نیوز کانفرنس میں اسرائیل کی حمایت پر جرمن چانسلر پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”حماس کے پاس نہ ایٹمی ہتھیار ہیں، نہ جدید بم، لیکن اسرائیل کے پاس سب کچھ ہے اور وہ ان ہتھیاروں سے روزانہ غزہ پر حملے کر رہا ہے۔ کیا جرمنی ان بمباریوں کو نہیں دیکھتا؟ کیا جرمنی کو یہ مظالم نظر نہیں آتے؟“
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل صرف بموں سے نہیں بلکہ فاقہ کشی اور محاصرے کے ذریعے بھی غزہ کے عوام کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اردوان نے کہا کہ ”یہ ظلم نسل کشی کے سوا کچھ نہیں۔“
ترک صدر، جو غزہ پر اسرائیلی حملوں کے سب سے نمایاں ناقدین میں شامل ہیں اور امریکا کی ثالثی میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے حامی بھی ہیں، نے واضح کیا کہ ترکیہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور انسانی امداد کی فراہمی کے لیے راستے کھولنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
دوسری جانب جرمن چانسلر فریڈرک مرز نے پریس کانفرنس کے دوران اسرائیل کے حق میں مؤقف اپناتے ہوئے کہا کہ ”اگر حماس نے یرغمالیوں کو پہلے ہی رہا کر دیا ہوتا اور ہتھیار ڈال دیے ہوتے تو بے شمار جانیں بچ جاتیں۔“
مرز نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ جنگ، امریکا اور ترکی کی حمایت سے ہونے والے فائر بندی معاہدے کے تحت ختم ہو جائے گی۔
مرز نے تاہم اسرائیل پر نسل کشی کے الزامات کی حمایت سے گریز کیا، اور کہا کہ ”اسرائیل پر تنقید کو یہودی دشمنی کا بہانہ نہیں بننا چاہیے۔“
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کے اقدامات کیے ہیں، جن میں وسیع پیمانے پر قتل، محاصرہ اور تباہی شامل ہے۔ متعدد بین الاقوامی اور اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔ البتہ اسرائیل ان الزامات کو سیاسی محرکات قرار دیتے ہوئے مسترد کرتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی فوجی کارروائیاں صرف حماس کے خلاف ہیں، عام شہریوں کے خلاف نہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران دونوں نیٹو اتحادیوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آئے، تاہم اردوان نے کہا کہ ترکی اور جرمنی اب بھی غزہ میں قحط کے خاتمے، انسانی امداد کی فراہمی، اور دفاعی صنعت میں تعاون کے لیے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔
انہوں نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے ترکی کے عزم کو بھی دہرایا۔
چانسلر مرز نے کہا کہ وہ ترکی کو یورپی یونین کا قریبی شراکت دار سمجھتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان معاشی، ٹرانسپورٹ اور امیگریشن کے شعبوں میں تعلقات مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔
 
       
         Aaj English
 Aaj English BRecorder
 BRecorder 
 
 
 
 

 

















