سرمایہ کاروں نے بھارت سے 17 ارب ڈالر نکال لیے، مالیاتی سیکٹر میں دوڑیں لگ گئیں
بھارت میں اس سال تقریباً 17 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے انخلا کے بعد مودی حکومت اور مالیاتی اداروں میں اصلاحات کے لیے دوڑیں لگ گئی ہیں، تاکہ ملک میں سرمایہ کاری کو دوبارہ متحرک کیا جا سکے اور بینکنگ سیکٹر کو مضبوط بنایا جا سکے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ”رائٹرز“ کے مطابق بھارتی مرکزی بینک (RBI) اور مارکیٹ ریگولیٹر ”SEBI“ نے حالیہ مہینوں میں کئی اہم اقدامات کیے ہیں تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا جا سکے اور مقامی معیشت کو سہارا دیا جا سکے۔
ان اقدامات میں کمپنیوں کے لیے لسٹنگ کے عمل کو آسان بنانا، غیر ملکی فنڈز اور بین الاقوامی قرض دہندگان کو زیادہ رسائی دینا، اور بینکوں کو بڑے کاروباری انضمامات کے لیے قرض فراہم کرنے کی اجازت شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق اگلے چھ سے بارہ ماہ میں مزید نرمی کی پالیسیوں پر غور کیا جا رہا ہے، جن کا مقصد چھوٹے شہروں میں عام شہریوں کی سرمایہ کاری کو فروغ دینا اور بینکاری نظام میں مزید آسانیاں پیدا کرنا ہے۔
یہ اقدامات ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی امریکی تجارتی پابندیوں کے بعد خود انحصاری پر زور دے رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق سخت امریکی ٹیرف نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پریشان کر دیا ہے اور وہ بھارتی مارکیٹ سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔
اس سال غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھارتی اسٹاک مارکیٹ سے 17 ارب ڈالر نکالے، جبکہ گزشتہ سال صرف 124 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی تھی۔ اس وجہ سے بھارت ایشیا کی سب سے زیادہ متاثرہ مارکیٹ بن چکا ہے۔
ادھر بھارتی ریزرو بینک کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت 2026 کے مالی سال تک 6.8 فیصد کی شرح سے ترقی کرے گی، جو پچھلے سال کے 6.5 فیصد سے کچھ بہتر ہے، لیکن حکومت کے مقررہ ہدف 8 فیصد سے کم ہے۔
رپورٹ کے مطابق موجودہ گورنر سنجے ملہوترا اور سیبی کے سربراہ توہین کانتا پانڈے، جو پہلے وزارتِ خزانہ میں اکٹھے کام کر چکے ہیں، اب پرانی سخت پابندیوں کو ختم کر کے مالیاتی نظام میں لچک لانے کے حامی ہیں۔
ایک ذریعے نے رائٹرز کو بتایا کہ گورنر ملہوترا نے ایک اجلاس میں کہا کہ ”پرانے بحران کے بعد لگائی گئی سخت پالیسیاں ایسے ہیں جیسے ٹوٹا ہوا ہاتھ جڑنے کے بعد بھی پلاسٹر نہ اتارا جائے۔“
اس وقت بینکوں کو بڑے کاروباری اداروں کو زیادہ قرض دینے، انضمام و حصول کے لیے فنڈنگ فراہم کرنے، اور نچلے درجہ کے قرض داروں کو بیرونِ ملک سے سرمایہ حاصل کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
سابق ڈپٹی گورنر ایچ آر خان کے مطابق ”موجودہ پالیسی ساز لبرلائزیشن اور مناسب ضوابط کی سمت جا رہے ہیں، اور یہ تبدیلیاں واقعی وقت کی ضرورت ہیں۔“
سیبی کے ترجمان نے کہا کہ اب تک 11 بڑے ریفارمز متعارف کرائے جا چکے ہیں تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے رسائی آسان بنائی جا سکے اور بھارت کی عالمی مسابقت میں اضافہ ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ یہ اقدامات مثبت ہیں، لیکن بھارت کی معیشت میں حقیقی تیزی تب ہی آئے گی جب عدالتی، ٹیکس اور کاروباری نظام میں بھی وسیع پیمانے پر اصلاحات کی جائیں گی۔
فنانشل ماہر ایان سیمونز کے مطابق ”حکومت کے لیے اصل چیلنج نجی شعبے میں دوبارہ اعتماد پیدا کرنا اور کاروبار کے لیے آسان ماحول فراہم کرنا ہے۔“
بھارت اس وقت اپنی مالیاتی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے، یا تو یہ اصلاحات غیر ملکی سرمایہ کاری واپس لائیں گی، یا پھر 17 ارب ڈالر کے انخلا کے بعد معیشت کو مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Aaj English

















