اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی: ٹی ایل پی اچانک حکومت کے نشانے پر کیوں آئی؟
حالیہ دنوں میں پیش آئے پرتشدد واقعات میں جانی اور مالی نقصان کے بعد پنجاب حکومت نے ایک اہم اور غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے وفاق سے تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی سفارش کی ہے۔ لیکن اچانک یہ نوبت کیوں پیش آئی کہ جو جماعت ماضی میں متعدد پُرتشدد واقعات میں ملوث رہی ہو اور اس کے خلاف محض نام نہاد کارروائی کی گئی ہو، اب اس کا خاتمہ کیا جارہا ہے؟
اگرچہ پنجاب حکومت نے نام نہیں لیا، مگر وزیراعلٰی کے دفتر سے جاری بیان میں واضح طور پر کہا گیا کہ پابندی ایک “انتہاپسند جماعت” پر لگانے کی سفارش کی جا رہی ہے، اور ایسے تمام افراد جو تشدد، نفرت پھیلانے یا قانون شکنی میں ملوث پائے گئے، انہیں فوراً گرفتار کیا جائے گا۔ انتہاپسند جماعت کی قیادت کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے چوتھے شیڈول میں شامل کیا جائے گا، جائیدادیں ضبط ہوں گی دفاتر بند اور اکاؤنٹس منجمد کیے جائیں گے۔
فیصلہ کیوں کیا گیا؟

چار روز قبل، 13 اکتوبر کو پیر کی صبح پولیس نے پنجاب کے ضلع مریدکے میں ٹی ایل پی کے احتجاجی کیمپ پر بڑا آپریشن کیا۔ یہ علاقہ لاہور سے تقریباً 60 کلومیٹر دور ہے اور وہیں سے ٹی ایل پی نے ”الاقصیٰ غزہ مارچ“ کا آغاز کیا تھا۔
پولیس کے مطابق اس آپریشن میں 2700 سے زائد ٹی ایل پی کارکنان کو گرفتار کیا گیا جبکہ مزید 2800 افراد کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے گئے تاکہ وہ بیرونِ ملک فرار نہ ہو سکیں۔
دوسری جانب، ٹی ایل پی قیادت نے الزام لگایا کہ پولیس کارروائی میں ان کے سیکڑوں کارکن جاں بحق ہوئے، تاہم سرکاری بیان کے مطابق صرف تین افراد ہلاکتیں سامنے آئی ہیں۔ حکومت نے ٹی ایل پی قیادت کے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا، مگر ٹی ایل پی کے ترجمان نے کہا کہ ”حکومت اپنی زیادتیوں کو چھپانے کے لیے لاشیں ہٹا چکی ہے۔“
پولیس کے مطابق جھڑپوں میں ایک ایس ایچ او کی جان گئی جبکہ درجنوں پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
ٹی ایل پی احتجاج کی اصل وجہ

ٹی ایل پی کا یہ احتجاج ایک بین الاقوامی معاملے سے جڑا ہوا تھا۔
29 ستمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کے ساتھ کھڑے ہوکر ایک 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا، جس کا مقصد غزہ میں جاری دو سالہ جنگ کا خاتمہ کرنا تھا۔
13 اکتوبر کو پاکستان سمیت کئی ممالک نے اس منصوبے کی توثیق کی۔
مذکورہ منصوبے کے مطابق غزہ میں جنگ فوری ختم ہوگی، حماس کے زیرِ حراست تمام مغوی 72 گھنٹوں میں رہا کیے جائیں گے اور غزہ کا انتظام ایک ”عارضی فلسطینی ٹیکنوکریٹ حکومت“ کے سپرد ہوگا، جس میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔
تاہم، اس منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کا واضح ذکر نہیں تھا، جو پاکستان کی طویل المدت پالیسی کا بنیادی حصہ رہا ہے۔
اسی نکتے پر تحریکِ لبیک پاکستان نے اس منصوبے کو ”فلسطینی عوام کے خلاف سازش“ قرار دیا اور اعلان کیا کہ وہ ”الاقصیٰ غزہ مارچ“ نکالے گی۔ پارٹی کے سربراہ سعد حسین رضوی کے مطابق مارچ کا مقصد امریکی سفارت خانے کے سامنے احتجاج کرنا تھا۔
احتجاج کا آغاز اور انجام

مارچ کا آغاز لاہور سے ہوا۔ ہزاروں کارکنوں نے شرکت کی۔ پولیس نے راستوں پر کنٹینر لگا کر رکاوٹیں کھڑی کیں، لیکن ٹی ایل پی کے کارکنوں نے مزاحمت کرتے ہوئے مریدکے تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
پولیس کے مطابق، کارکنوں نے اہلکاروں پر حملے کیے، جبکہ ٹی ایل پی کا مؤقف ہے کہ یہ صرف ایک پرامن احتجاج تھا اور پولیس نے بلاوجہ تشدد کیا۔
پیر کی صبح ہونے والے آپریشن کے بعد لاہور، شیخوپورہ، اور گوجرانوالہ کے مختلف علاقوں میں چھاپے مارے گئے اور سیکڑوں کارکنان کو گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن مارچ کی قیادت کرنے والے سعد حسین رضوی اور ان کے بھائی انس رضوی پولیس کے ہاتھ نہ آسکے۔
سعد رضوی اور ان کے بھائی کہاں ہیں؟

آپریشن کے بعد ٹی ایل پی کے مرکزی رہنما سعد حسین رضوی اور ان کے بھائی انس حسین رضوی لاپتہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کی ہلاکت کی افواہیں پھیلیں، لیکن پولیس نے ان خبروں کی تردید کی۔
لاہور پولیس کے سینئر افسر فیصل کامران نے کہا کہ ”دونوں بھائی پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں، مگر ان کا سراغ لگا لیا گیا ہے، اگر وہ خود کو پولیس کے حوالے نہیں کرتے تو انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔“
ٹی ایل پی کی سیاسی تاریخ

تحریکِ لبیک پاکستان 2015 میں مولانا خادم حسین رضوی نے قائم کی تھی، جو بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ جماعت توہینِ مذہب کے معاملے میں سخت مؤقف رکھنے کے باعث جانی جاتی ہے۔
ٹی ایل پی نے 2017، 2020 اور 2021 میں کئی پرتشدد احتجاج کیے۔ 2018 کے انتخابات میں انہیں 20 لاکھ سے زائد ووٹ ملے، لیکن قومی اسمبلی میں کوئی نشست نہیں ملی۔
ان کی سیاست زیادہ تر ”ناموسِ رسالت ﷺ“ کے نعرے اور مذہبی جذبات کو بنیاد بنا کر عوامی حمایت حاصل کرنے پر مبنی رہی ہے۔
ٹی ایل پی نے اس بار اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری؟

ماہرین کے مطابق ٹی ایل پی نے اس بار مذہبی نہیں بلکہ خارجہ پالیسی کے مسئلے (فلسطین) پر احتجاج کر کے اپنی سیاست کا رخ بدلنے کی کوشش کی، مگر یہ فیصلہ الٹا پڑ گیا۔
سنگاپور کے ایس راجارتنم اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ذیلی ادارے ”انٹرنیشنل سینٹر فار پولیٹیکل وائلنس اینڈ ٹیررازم ریسرچ“ سے وابستہ محقق عبدالباسط کہتے ہیں کہ ”یہ جماعت ہمیشہ تصادم کی سیاست کرتی ہے۔ شاید اس بار انہوں نے سوچا کہ وہ اپنے تاثر کو بدلے گی، مگر احتجاج کو عوامی حمایت نہیں ملی۔“
اسی طرح، سیکیورٹی تجزیہ کار اور پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ”ٹی ایل پی نے پچھلے کئی احتجاجوں میں پولیس پر حملے کیے لیکن کبھی سخت جواب کا سامنا نہیں کیا۔ اس بار ریاست نے پوری طاقت کے ساتھ جواب دیا۔“
کیا عوام ٹی ایل پی کے ساتھ ہیں؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان میں غزہ امن منصوبے کے خلاف کوئی بڑی عوامی تحریک سامنے نہیں آئی۔ بڑی مذہبی جماعتیں، جیسے جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) نے صرف ”فلسطینی عوام سے اظہارِ یکجہتی“ کے جلسے کیے، مگر کسی نے بھی امن منصوبے کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، ٹی ایل پی نے شاید عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے یہ مارچ کیا، مگر اس بار اس کی ”سڑکوں والی سیاست“ کامیاب نہیں ہو سکی۔
شدت پسندی کم ہوگی بڑھے گی؟

پنجاب حکومت کا ممکنہ طور پر ٹی ایل پی پر پابندی لگانے کا فیصلہ پاکستان کی سیاست میں ایک نیا موڑ ہے۔ اگر وفاق اس فیصلے کی منظوری دیتا ہے تو ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے، اور اس کی قیادت کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات قائم ہوں گے۔
تاہم، یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ آیا اس پابندی سے پارٹی کی شدت پسندی کم ہوگی یا یہ فیصلہ ٹی ایل پی احتجاج کو مزید بھڑکا دے گا۔
Aaj English














اس کہانی پر تبصرے بند ہیں۔